ایک زمانے میں ہم نے ، احباب کی محفل میں روا رکھی جانے والی یاوہ گوئیوں، گرم گفتاریوں، بے دھڑک پھبتیوں، ذومعنی جگتوں کے سبب اپنے ایک لنگوٹیے یار کے خاکے کا عنوان ’’منہ پھٹ‘‘ رکھا،جس پر وہ منھ پھلا کے بیٹھ گیا۔ ہم نے اسے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ ہمارے پاس پہلی آپشن ’’بھونکا‘‘ کی بھی تھی، جسے سرِ عام افشا یا اختیار کرنے کی ہمت نہیں پڑی۔ خیر دوست اچھا تھا، منھ پہ کڑوے سچ بولنے کا حوصلہ بھی رکھتا تھا، اس کی یہی ادا ہمیں بھاتی تھی، لہٰذا ہم نے تھوڑی رعایت کرتے ہوئے اپنی اس تیکھی تحریر کے ماتھے پہ ’’باتونی‘‘ کی سُرخی جما دی۔ اس کی خفگی کسی تک کم ضرور ہوئی لیکن ماتھے کی تیوری ختم نہیں ہوئی۔ بالآخر ہم نے اخوت و مروت کی برکات اور بے تکلف دوستی کے درجات کو ذہن میں رکھتے ہوئے تحریر میں تو کوئی رد و بدل نہیں کیا البتہ خاکے کا عنوان ’’گفتار کا غازی‘‘ کر دیا، اس کی تو باچھیں کھِل گئیں۔ لیکن دوستو! آج پھر ہمیں ایک ایسے دوست کی بے مہار منہ ماریوں، بدتمیزیوں اور سرکشیوں کا سامنا ہے، جس کے لیے شاید مندرجہ بالا چاروں القاب و عنوانات بھی کم پڑ جائیں۔ وہ میرا، آپ کا بلکہ ہم سب کا ایسا دوست ہے ، جس کے بغیر ہمیں نہ دن کو چَین ہے اور نہ رات کو آرام۔ ہم اس کی مانیں یا نہ مانیں لیکن اس کی سنتے ضرور ہیں بلکہ اکثر اوقات تو سر بھی دُھنتے ہیں … جی ہاں! اس ناگزیر دوست کا نام ’’سوشل میڈیا‘‘ ہے، جو کبھی کبھی تو ایسی ناخلف اولاد کی مانند لگنے لگتا ہے جو اپنے باپ کے خلاف بھی تلخ سچ بولنے اور ننگے حقائق بیان کرنے سے باز نہیں آتا۔ اوپر سے اس کی اولادیں جو رشتے میں ہمارے بھتیجے بھتیجیاں ہی لگتی ہیں اور جنھیں ہم تم وٹس ایپ، فیس بُک، ٹویٹر، انسٹا گرام، ایمو، ٹِک ٹاک وغیرہ کے ناموں سے جانتے ہیں، اُن کی لُتری نے تو بعض معاملات میںشیطان کی پُتری کو بھی مات دے دی ہے۔ ہم سب اس دوست کی روز روز کی منھ زوریوں اور پل پل کی گستاخیوں کے باوجود اس سے بنا کے رکھنے پر مجبور ہیں کیونکہ یہ ہمیں ہنسانے، دور دیس کے دوستوں سے ملانے، طرح طرح کی معلومات فراہم کرنے کے ساتھ سیاست، سماج، رواج، ازدواج سے متعلق ایسی اَن کہی اور اَن ہونی باتیں بھی کہہ جاتا ہے، جس سے بہت سے لوگوں کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ جاتی ہے کیونکہ وہ خود ایسی بات کہنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر پی ٹی آئی اور تحریکِ لبیک کی صلح پر اسمبلی میں احسن وعباسی کی بوکھلاہٹ اور جھنجلاہٹ دیکھ کر اسی دوست نے کہا: اب پتہ چلا کہ اس توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کا اصل محرک کون ہے؟ کسی صاحب نے لکھاکہ تین سال میں تبدیلی نظر نہیں… ایک محترمہ نے فوراً جواب دیا: جن کو تیس سال میں لُوٹ مار نظر نہیں آئی، تبدیلی کہاں نظر آئے گی؟… شہباز شریف رہا ہوا تو آواز آئی: 1990 میں ان صاحب کے کل اثاثوں کی مالیت بیس لاکھ تھی، 2018 میں وہ 732 کروڑ تک پہنچ گئی، ذریعہ آمدن پوچھو تو جمہورت بی بی کو خطرہ ہے… کوئی پکارا: تاجر برادری کا ایک مفتی کے کہنے پر ہڑتال کا اعلان لیکن اپنے رسولؐ کے کہنے پر ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی سے پرہیز کرنے سے انکار…حالیہ ہنگاموں میں دونوں طرف کے ’شہید‘ دیکھ کے ایک صاحب کہنے لگے : ’’مشترکہ ہندوستان میں ہندو مسلمانوں کو مارتے تھے۔ پھر مسلمانوں نے سوچا کہ اپنا الگ ملک بنایا جائے، جہاں صرف مسلمانوں ہی کو مسلمانوں کو مارنے کی اجازت ہونی چاہیے۔… کسی طرف سے یہ گستاخی بھی دیکھنے میں آئی کہ فضل الرحمن کی جانب سے بھائی عطاالرحمن، داماد زبیر علی، سالی نعیمہ کو سینٹ ٹکٹیں، جبکہ عوام الناس کو جنت کی ٹکٹیں دینے کا اعلان! … آج کل رمضان کا بابرکت مہینہ ہے لہٰذا اس کے حوالے سے بھی ہمارے اس دوست کی زبان کون پکڑے؟ گزشتہ روز کہہ رہا تھا: مؤرخ لکھے گا کہ اکیسویں صدی میں ایک ایسی قوم بھی تھی جو سحری کے انتظار میں پوری رات جاگتی اور افطاری کے انتظار میں سارا دن سوتی تھی… یہ وہی قوم تھی جس کی پچانوے فی صد آبادی اسلام پہ جان قربان کرنے کو تیار تھی لیکن کسی بھائی میں بازار سے اصلی شہد، خالص دودھ، ملاوٹ سے پاک سرخ مرچ اور نرول آٹا ڈھونڈ کے لانے کی ہمت نہ تھی… کسی بدتمیز کے اس نوٹس کو پبلک کرنے پر تو گویا ہمیں آگ ہی لگ گئی:’’ کورونا کی شدید لہر کی وجہ سے پیر صاحب ایک مہینہ قرنطینہ میںہوں گے… زائرین سے درخواست ہے کہ اتنی دیر اللہ سے مانگ کے دیکھ لیں!‘‘ ایک دل جلے نے اسی دوست کے ماتھے پہ یہ ذاتی تجربہ کندہ کر رکھا تھا کہ ایک جاپانی لڑکی می وا (Miwa) کہنے لگی: ’’یہ جو تم رمضان کا پورا مہینہ صبح سے شام تک بھوکے پیاسے رہتے ہو، اس سے تمھیں کیا ملتا ہے؟‘‘ مَیں نے اسے بتایا کہ ’’ روزہ صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ روزے کے دوران ہم نے جھوٹ، بے ایمانی، ملاوٹ، کم تولنے اور ناانصافی وغیرہ جیسے برے کاموں سے بھی بچنا ہوتا ہے۔‘‘ اس پر وہ جھٹ بولی: ’’آپ کی تو موجیں ہیں،ہمیں تو سارا سال ہی ان کاموں سے بچنا پڑتا ہے۔‘‘ چلتے چلتے اپنے اس دوست کی یہ مسخری بھی برداشت کر لیں… ایک خاتون کے بارے خبر آئی کہ وہ اُس سے شادی کرے گی جو حق مہر میں ایک لاکھ کی کتابیں دے سکے… جواب میں ایک من چلے نے سٹیٹس لگایا کہ جس کی ذاتی لائبریری میں چار لاکھ کی کتب موجود ہوں اس کے لیے کیا حکم ہے؟ ٭٭٭٭٭