اکثر لوگ کسی صدمے سے گزرتے ہیں تو ان کا ذہن فورا ہی اس کو قبول کرلیتا ہے اور اعصاب کو ایسے سگنل بھیجنا شروع کردیتا ہے جس سے صدمے کی شدت کم ہوسکے جیسے آنسو بہنا،چیخنا چلانا اور بین کرنا۔اس طرح ان کے اعصاب جلد پرسکون ہوجاتے ہیں اور وہ حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے جلد ہی نارمل زندگی کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ میرے ساتھ اس کے برعکس ہوتا ہے۔صدمہ جس وقت میرے اعصاب سے ٹکراتا ہے وہ ایسے سن ہوجاتے ہیں جیسے بیر بہوٹی چھونے پہ بے حس اور ساکت ہوجاتی ہے۔دیکھنے والوں کو لگتا ہے شاید مجھ بے حس پہ کوئی اثر ہی نہیں ہوا۔اس وقت میرا ذہن بالکل منطقی انداز میں کام کرتا ہے جیسے اس گزرنے والے صدمے کا مجھ سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لیکن ذہن کی گرہیں کھلنی شروع ہوجاتی ہیں۔رفتہ رفتہ اعصاب کو اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ بہت برا ہوچکا ہے۔ بلاگر اور فری لانس صحافی محمد بلال خان ، جسے اتوار کی رات بڑی شقی القلبی سے گھر سے دھوکے سے بلا کر شہید کردیا گیا، بڑا ہی پرجوش نوجوان تھا۔اس کے وفور شوق کو کسی حد میں رہنا آتا ہی نہ تھا۔ میراا س سے تعلق سوشل میڈیا یا فون کی حد تک تھا۔ملاقات کی خواہش اسے بھی تھی اور مجھے بھی لیکن نہ مجھے فرصت ملتی تھی نہ اسے۔فطری طور پہ ہر نوجوان کی طرح رومان پرور تھا۔ایک بار مجھے اپنی دسمبر پہ لکھی نظم فون پہ سنائی اور کہا کہ اسے اپنی آوازمیں ریکارڈ کروادیں۔وہ ایسی ہی نظم تھی جیسے کسی نوجوان عاشق کی ہوسکتی ہے جب وہ ہجر کے دلگیر لمحات سے گزر رہا ہو۔ سوشل میڈیا پہ اپنی رائے کو مختمم سمجھنے والے، اپنے مسلک پہ غلو کی حد تک عمل پیرا رہنے والے شدید مذہبی رجحان رکھنے اور اسی حوالے سے مشہور ہونے والے محمد بلال خان کی یہ خواہش اتنی معصوم تھی کہ مجھے بے ساختہ ہنسی آگئی۔میں نے اپنی آواز میں اس کی نظم کئی انداز سے ریکارڈ کرکے بھیج دی۔آج بھی شاید اس کے خون آلود موبائل میں وہ محفوظ ہو۔ میں اسے تب سے جانتی تھی جب اسے سوشل میڈیا پہ کم ہی لوگ جانتے تھے۔ہم نے گستاخانہ خاکوں کے خلاف تحفظ ناموس رسالت ﷺ مہم چلائی اور ریلیاں منعقد کیں تو وہ ہم سے آگے تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے اس کے فالوورز کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔اس کا پرجوش بلکہ شعلہ فشاں انداز جہاں اعتدال کی حد سے گزر جاتا تھا وہیں اسی باعث نوجوانوں میں مقبول بھی تھا۔مجھے اس کے بڑھتے ہوئے جارحانہ انداز سے خوف سا آنے لگا۔معاشرہ یوں بھی میانہ روی سے ناواقف تھا۔عدم برداشت اور فرقہ واریت کو ہوا دینے والے بہت تھے اور اس آگ کو بجھانے والے بہت ہی کم۔سوشل میڈیا طرفین کا ہتھیار تھالیکن پاکستان میں عوام کے مذہبی جذبات عموماً شدت پسندی کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔حرمت صحابہؓ ہمارے ایمان کا حصہ ہے لیکن میرا خیال یہ ہے کہ چودہ سو سال پرانے تنازعات نہ اب حل ہوسکتے ہیں نہ ہی ان حساس موضوعات پہ مباحث کا سوشل میڈیا کوئی سنجیدہ فورم ہے۔اس لئے میں نے کبھی ان معاملات کو چھیڑا نہ ان میں دلچسپی ظاہر کی۔بلال کے یہ پسندیدہ موضوعات تھے۔وہ ناموس رسالتﷺ اور صحابہ کرام ؓکی حرمت کے لئے سوشل میڈیا کو میدان جنگ سمجھتا تھا اور ہمہ وقت شمشیر زن رہتا۔رفتہ رفتہ ہم میں دوریاں بڑھنے لگیں۔اس کی ایک وجہ سیاسی اختلاف بھی تھا۔تلخیوں سے بچنے اور چھوٹے بھائی جیسے بلال خان کے ساتھ تعلقات کی خرابی سے یہ دوری ہی بہتر تھی۔وہ اتنا ذہین،زود حس، حساس اور متعامل تھا کہ اس کے اندر ہر وقت کوئی آگ سی بھڑکتی رہتی تھی۔میری خواہش تھی کہ وہ کندن بن جائے،جل کے راکھ نہ ہو۔وہ ان ذہنوں میں سے تھا جو تھوڑا اعتدال اختیار کرلیں تو ملک وقوم کا اثاثہ ثابت ہوسکتے ہیں۔وہ بلا خوف و خطر ہر مظلوم کی آواز بننے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اسے خوف تھا کہ اسے کسی بھی وقت مار دیا جائے گا۔اسے دھمکیاں بھی موصول ہو رہی تھیں۔وہ آج کل کے مقبول اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کا سرگرم مبلغ ضرور تھا لیکن محب وطن نوجوان تھا۔ اس نے سوشل میڈیا پہ فوج مخالف سیکولر صحافیوں کے پورے بریگیڈ کو اکیلے نکیل ڈال رکھی تھی۔المیہ یہ ہوا کہ ایسے بے خوف نوجوان کو اس کے گھر سے باہر بلا کر خون میں نہلادینے کے دہلا دینے والے واقعہ پہ ملکی میڈیا بے ہوش پڑا رہا اور جب صبح کا سورج طلوع ہوا تو انٹرنیشنل میڈیا اس کے قتل پہ پاک فوج اور ایجنسیوں کے خلاف پورا مقدمہ بنا چکا تھا۔نیویارک ٹائمزنے سرخی لگائی تھی کہ سول اور ملٹری اداروں پہ تنقید کرنے والے بلال خان کو قتل کردیا گیا۔ فوج کے خلاف اس سے کہیں زیادہ زہریلا پروپیگنڈا ہمارے سیکولر صحافی نما ایکٹیوسٹ کرتے رہتے ہیں۔حا ل ہی میں پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما نہ صرف زہر اگلتے رہے بلکہ خڑ کمر جیسے واقعہ میں ملوث رہے۔ پاکستان کی ایجنسیاں حد سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرتی ہیں ورنہ آسٹریلیا میں حال ہی میںفوج کے خلاف رپورٹ شائع کرنے پہ آرمی کاکریک ڈاون آپ دیکھ سکتے ہیں۔دنیا صحافیوں کے لئے پاکستان سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔بلال خان کی اندوہناک شہادت پہ ابھی ہم صدمے کی حالت میں ہی تھے کہ یہی لبرل بریگیڈ جس کے خلاف وہ آخری لمحے تک برسرپیکار رہا ، سوشل میڈیا پہ اس کے حق میں متحرک ہوگیا اور ملکی ایجنسیوں کو اس کی شہادت کا ذمہ دار قرار دے ڈالا۔اگلی صبح پاکستان مخالف ہر اخبار نے اس کے قتل پہ اپنا مقدمہ بنا کر چھاپ دیا۔ہم سوتے رہ گئے۔ مجھے اس بحث میں نہیں پڑنا کہ بلال خان جیسے ذہین اور نڈر نوجوان جب سوشل میڈیا پہ آتے ہیں تو کتنے ہی گھاگ ہاتھ انہیں ان دیکھی گرفت میں لیے رکھتے ہیں۔حد سے بڑھی ہوئی ذہانت کو جب پذیرائی ملتی ہے تویہی لوگ اسے بڑھاوا دیتے ہیں۔کوئی اسے تحمل اور توازن کا مشورہ نہیں دیتا۔ خیر خواہ جو سوشل میڈیا پہ بہت ہی کم ہیں ،رفتہ رفتہ دور ہوجاتے ہیں۔سیاسی وابستگیاں عقیدے کی حد تک مضبوط ہوتے ہوئے بھی ایک حد میں رہتی ہیں لیکن مذہبی اور مسلکی عقائد تو جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔اس سب سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ محب وطن بلال خان کے خون پہ پاکستان کے نظریاتی دشمن اپنی دکان سجا لیتے ہیں اور ہم صدمے کے عالم میں دیکھتے رہ جاتے ہیں۔