تاریخ میں سب سے بڑا سوال شاید ہمیشہ یہ رہا کہ انسانوں کی اکثریت سوچتی کیوں نہیں؟ سب سے بڑے سوال پہ غور کیوں نہیں کرتی کہ کیا اس کائنات کا کوئی مالک ہے یا نہیں اور اگر ہے تو اس کی مرضی و منشا کیا ہے۔ کچھ چیزیں ہم جانتے ہیں اور کچھ ایسی ہیں، جو سمجھنا چاہتے ہی نہیں۔ کچھ ایسی ہیں کہ باطن ان کی صداقت سلگتی ہے۔ ہماری جبلتیں لیکن دھکیل کر ان چنگاریوں کو پرے پھینک دیتی ہیں۔ نسیم بیگ مرحوم کہا کرتے:میڈیا کے تجزیوں میں اور تو سبھی کچھ ہوتا ہے مگر خالقِ کون و مکان اور اس کے آخری پیغمبرؐ کا نام تک نہیں۔ جو جتنا بڑا دانشور ہے، اپنے خالق سے اتنا ہی بے نیاز۔ آئن سٹائن نے کہا تھا: مانتا ہوں کہ خیرہ کن وسعت اور ناقابلِ یقین تنوع کی یہ کائنات کسی بنانے والے نے بنائی ہے۔ وہی بے انتہا پیچیدہ یہ نظام چلا رہا ہے۔ایک ذاتی خدا پہ مگر میں یقین نہیں رکھتا۔ رواں صدی کے سب سے بڑے سائنسدان سٹیون ہاکنگ کے خیالات کا خلاصہ یہ ہے: خدا؟ کون خدا؟ بیسویں صدی کے سب سے بڑے فلسفی لارڈ برٹرنڈرسل کی مشہور کتاب چھپ چکی تھی:Why I am not a Christian۔ پوچھا گیا کہ کیا اس نے قرآن پڑھا ہے۔بولا: Why should I? all Gospel truth are alike۔ کیوں پڑھوں؟ ساری الہامی کتابیں ایک جیسی ہیں۔ خوب وہ جانتا تھا کہ ساری الہامی کتابیں ایک جیسی نہیں۔ تورات، زبور اور انجیل کا ایک بھی متفقہ نسخہ موجود نہیں۔ انجیل کا ایک متفقہ نسخہ تشکیل دینے کی کوشش کی گئی۔ یہ ذمہ داری ایک بڑے فہیم پادری ہولی ہوکس کو سونپی گئی۔برسوں کی ریاضت کے بعد اس نے اعلان کیا کہ وہ ملحد ہو چکا۔ ملحد کے لیے اس نے ایک نئی اصطلاح استعمال کی، سیکولرازم اور یہ کہا: کوئی شخص سیکولر ہو ہی نہیں سکتا اگر وہ کائنات کے کسی خالق پہ یقین رکھتا ہو۔ 1895ء میں یہ کتاب پہلی بار چھپی۔ درجنوں اناجیل کے متون میں اختلاف اس قدر وسیع تھا کہ ہولی ہوکس اس میں گرا تو اٹھ نہ سکا۔ آخر زچ ہو کر انکار کر دیا؛چنانچہ سیکولر ازم مذہب کا ناجائز بچہ ہے۔ کورونا کی آزمائش آئی توسوچا: اور تو سب چیزوں کے بارے میں ہم سوچتے ہیں،مالک کے بارے میں کیوں نہیں۔ کورونا سمیت، جس نے 87لاکھ قسم کی مخلوقات پیدا کیں۔ تفسیرِ ابن کثیر میں ایک ممتاز سکالر کا بیان کردہ واقعہ رقم ہے۔ کسی غریب نے ایک خچر پال رکھا تھا۔ اس خچر پر کوئی سواری لاد کر قریب و دور کے شہروں میں وہ جایا کرتا۔ منزل کو جاتے ہوئے ایک جگہ سواری نے خچر کو ایک ان دیکھے راستے پر موڑنے کی فرمائش کی ’’میں اس راہ سے واقف نہیں‘‘خچر والے نے کہا۔ ’’میں تو واقف ہوں‘‘ جواب ملا۔ وہ ایک جنگل میں جا پہنچے۔ بعد میں جو داستان اس نے بیان کی،وہ تفسیر ابنِ کثیر میں ہے۔ جنگل میں داخل ہوتے ہی،چاروں طرف پڑی ہوئی لاشیں اس نے دیکھیں۔ کود کر کرایے دار سواری سے اترا اور چھرا ا س کے ہاتھ میں تھا۔ بہتیری میں نے اس کی منت سماجت کی۔ یہ درخواست بھی کی کہ خچر سمیت اس کی سب چیزیں لے لے اور اسے معاف کر دے۔ ڈاکو نے کہا: چیزیں تو میری ہو ہی چکیں، قتل بہرحال مجھے کرنا ہے۔ منت سماجت مزدور نے جاری رکھی۔ یومِ آخرت کا حوالہ دیا۔ بے گناہ کو قتل کرنے کے عذاب کا بھی مگر قاتل کا دل نہ پسیجا۔ کچھ اور نہ سوجھا تو خچر والے نے کہا: ایک آخری خواہش ہے۔ مجھے دو نفل پڑھنے دو۔ معلوم نہیں، کیوں اس نے اجازت دے دی ورنہ جیسا کہ واقعات سے ظاہر ہے، یومِ آخرت پر وہ یقین نہ رکھتا تھا کہ اس کا دل پتھر ہو چکا تھا۔ وہ کہتاہے: خوف اس بری طرح طاری تھا کہ نماز کے الفاظ میں سے ایک لفظ بھی مجھے سوجھتا نہ تھا۔ اچانک روشنی کی ایک کرن قلب و دماغ میں طلوع ہوئی اور میں نے قرآنِ کریم کی ایک آیت پڑھی ’’کون مضطرب کی دعا سنتا ہے اور کون برائی کی گرہیں کھولتا ہے اور تمہیں زمین پر حکومت عطا کرتاہے۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور بھی خدا ہے اور کم ہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں۔‘‘ دعا جیسے ہی تمام ہوئی، ایک گھڑ سوار نمودار ہوا۔ برق رفتاری سے وہ نیچے اترا اور ڈاکو کو چھرا گھونپ کر اس نے ہلاک کر دیا۔ میری مصیبت تمام ہو چکی تھی مگر حیرت نہیں۔غیب سے نمودار ہونے والے سوار سے میں نے پوچھا: اے میرے محسن، تم کون ہو اور کس نے تہیں بھیجا ہے۔ جواب مختصر تھا: جس سے تم نے دعا مانگی تھی۔ یہ کہا اور اپنی راہ لی۔ ماہرین یہ کہتے ہیں کہ ایڈز، ایبولا اور کورونا ایسے وائرس وحشی جنگلی جانوروں سے انسانی تعامل کے نتیجے میں انسانوں کے پیکر میں داخل ہوتے ہیں۔ کوئی ان میں سے یہ نہیں کہتا کہ وحشی جانوروں کے ساتھ اس تعامل میں احتیاط لازم ہے۔ کوئی اس پر زور نہیں دیتا۔ شاید ہی کوئی صدی ایسی بیتی ہو، عالمگیر نہیں تو ملک گیر وبائیں جس میں نہ پھوٹی ہوں۔ سپین کے فلو میں کروڑوں مر گئے۔ بیسویں صدی میں چیچک سے تیس کروڑ انسان ہلاک ہوئے۔ ریڈ انڈینز کی اکثریت بھی چیچک اور انفلوئنزا کے جراثیم سے مری۔ پاگل پن کے مظاہر اس کے سوا ہیں، قومیں جس میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ پہلی اور دوسری عالمگیر جنگ جس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ درجنوں ممالک جس کے نتیجے میں برباد ہوئے۔ مفتوح نہیں، فاتح بھی۔ فوجی نہیں، غیر متعلق معصوم لوگ بھی۔ آدمی مگر سوچتا کیوں نہیں۔ ہر چیز پہ غور و فکر کرتاہے مگر اپنے خالق کے بارے میں کیوں نہیں سوچتا۔ اس کے طے کردہ قوانین پہ ریاضت کیوں نہیں کرتا۔ اس کے بتائے ہوئے حرام اور حلال کی پابندی پہ ذہن کیوں مرتکز نہیں کرتا۔ اسلام ہی نہیں، عیسائیت اور یہودیت سمیت اکثر مذاہب میں بتا دیا گیا۔پوری وضاحت سے بتا دیا گیا کہ حرام کیا ہے اور حلال کیا۔بتایا اس نے ہے،فرمایا اس نے ہے، کائنات اور زندگی جس نے تخلیق کی ہے۔ چیونٹی سے ہاتھی تک اور ابنِ آدم کی تمام نسلوں کی ساری جبلتوں سے جو خوب خوب واقف ہے۔ اس کی ضروریات، ان میں سے ہر ایک کے جسمانی نظام اور نفع نقصان سے بھی۔ایک ایک غذا کے تمام اثرات سے بھی۔ جس کا فرمان یہ ہے: ولا یحیطون بشئیئٍ من علمہ الا بما شائ۔ اللہ کے علم میں سے انسانوں کو اتنا ہی نصیب ہوتاہے، جتنا کہ وہ چاہے۔ تاریخ میں سب سے بڑا سوال شاید ہمیشہ یہ رہا کہ انسانوں کی اکثریت سوچتی کیوں نہیں؟ سب سے بڑے سوال پہ غور کیوں نہیں کرتی کہ کیا اس کائنات کا کوئی مالک ہے یا نہیں اور اگر ہے تو اس کی مرضی و منشا کیا ہے۔