اسلام آباد (خبر نگار)عدالت عظمی ٰنے شوگر کمیشن رپورٹ پر عملدرآمد روکنے کا سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی وفاقی حکومت کی استدعا مسترد کرکے مقدمہ تین رکنی بینچ کے سامنے مقرر کرنے کی ہدایت کی ہے ۔دو رکنی بینچ نے کیس کی مزید سماعت 14جولائی تک ملتوی کرکے قرار دیا کہ میرٹ پر کیس سن کا فیصلہ کیا جائے گا۔اٹارنی جنرل کی سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا پر چیف جسٹس نے ریما رکس دیئے کہ ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کردیا تو کیس ختم ہوجائے گا،حکومت رپورٹ کے بغیر ایکشن لے ، کس نے روکا ہے ؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ رپورٹ کے آپریشن کو کیسے معطل کیا جاسکتا ہے ؟پانامہ کیس میں ان پہلوئوں کو طے کردیا ہے ۔ ملز مالکان کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ایسے مقدمات کا حوالہ نہ دیا جائے جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ رپورٹ کالعدم ہونے سے بھی شوگر ملز کو کچھ نہیں ملے گا کیونکہ ریگولیٹری اداروں کو کام سے نہیں روکا جاسکتا۔ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے سے کمیشن کی رپورٹ پر عمل درآمد رک گیا ہے ۔ عدالت نے سوال اٹھایا کہ کیا کمیشن کو شوگر ملز کو موقف کا موقع نہیں دینا چاہئے تھا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیشن کے سامنے موقف دینے کی ضرورت نہیں تھی، کچھ شوگر مل مالکان نہیں چاہتے کہ رپورٹ پر اتھارٹیز کارروائی کریں، کچھ شوگر ملز مالکان کے پی کے اور کچھ بلوچستان ہائی کورٹ بھی چلے گئے ، وفاقی کابینہ نے میری سفارش پر اداروں کو دی گئی ہدایات واپس لے لیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ صوررتحال حکومت نے خود پیدا کی ، حکومت تحقیقات کراکر مقدمات بنا دیتی۔ شوگر ملز مالکان کے وکیل مخدوم علی خان نے کہاکہ کمیشن نوٹی فکیشن کے بغیر قائم ہوا اس لئے غیر قانونی ہے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شوگر ملز ایسوسی ایشن کمیشن کی رپورٹ سے جان نہیں چھڑا سکتی۔ کیا کہ یہ محض کمیشن کی رپورٹ ہے ، اس پر حکم امتناع کیوں لینا چاہتے ہیں؟جسٹس اعجازالاحسن نے کہا ایک ہی ایسوسی ایشن دو مختلف ہائیکورٹس سے کیسے رجوع کرسکتی ہے ؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ کیا کمیشن قانون کے مطابق بنایا گیا اور کیا یہ غیرجانبدار تھا؟ کیا کمیشن نے شوگر ملز مالکان کا موقف سنا؟ اگر ان چیزوں کا خیال نہیں رکھا جاتا تو عدالتیں مداخلت کرسکتی ہیں، حکومت کہتی ہے عوام پر ایک طبقے کا قبضہ ہوگیا ہے ، حکومت ریاستی اداروں کی مدد سے اس چیز کو نہیں روک سکتی تو پھر یہاں کیوں بیٹھی ہے ؟ کسی بھی انکوائری کمیشن کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہونا لازمی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چینی عوامی نوعیت کا ایشو ہے ہو سکتا ہے گزٹ نوٹیفکیشن کسی دراز میں موجود ہو۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ شوگر کمیشن رپورٹ میں سیاسی اتحادیوں کی نشاندہی کی گئی ہے ، رپورٹ پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ملی بھگت کیسے ہوئی، 11 سال سے مسابقتی کمیشن پر حکم امتناع چل رہا ہے ۔اعجازالاحسن نے کہا کہ شاید ایف بی آر سمیت کئی اداروں میں اہلیت کا فقدان ہے ، کمیشن کے ارکان شوگر ملز کے خلاف کیوں جانبدار ہوں گے ؟ عدالت نے آبزرویشن دی کہ ریگولیٹری ادارے کمیشن رپورٹ کا حوالہ دیئے بغیر بھی کاروائی کر سکتے ہیں، شوگر ملز کے پاس ریگولیٹری اداروں میں دفاع کرنے کا پورا موقع موجود ہے ، اب ممکن نہیں کہ کچھ ملزموں کے خلاف کاروائی سے روکا جائے اور باقی کے خلاف کاروائی جاری رہے ۔ اٹارنی جنرل نے کہا درخواستگزار شوگر ملز کو چھوڑ کر باقی کیخلاف کارروائی جاری رہے گی۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے افریقی خاتون سمیعہ مرزا کی درخواست سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے خاتون کے دو بچے عدالت میں پیش کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے ام رباب چانڈیو کے اہلخانہ کے تین افراد کے قتل کے خلاف لیے گئے ازخودنوٹس کی سماعت کے دوران مفرور ملزموں کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیااور سندھ پولیس کو ملزم6 ہفتوں میں گرفتار کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔