12 نومبر کو الیکٹرانک میڈیا پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی تین رُکنی بنچ میں جعلی بنک اکائونٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ ’’ اگر اومنی گروپ "Lanches" (بڑی کشتیوں/ بحری جہازوں )کے ذریعے "Money" ( سکۂ رواں ڈالر ، روپیہ وغیرہ) واپس کردے تو اُس کے خلاف فوجداری مقدمات ختم کردئیے جائیں گے‘‘۔ 12 نومبر ہی کو وزیراعظم عمران خان کے احتساب سے متعلق خصوصی معاون جناب شہزاد اکبر نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے بتایا کہ ’’ دس بیرونی ممالک میں کی گئی تفتیش/ تحقیقات سے 700 ، ارب روپے کی "Money Laundering" (یعنی کالے دھن کو سفید کرنے) کی معلومات مِل گئی ہیں ‘‘۔ جناب شہزاد اکبر نے کہا کہ ’’ منی لانڈرنگ اور مختلف غیر قانونی طریقوں سے 700 ، ارب روپیہ پاکستان سے باہر لے جانے واگے مگرمچھوں ؔکو نوٹسز بھجوا دئیے گئے ہیں کچھ ملکوں میں اُن کے اثاثے بھی منجمد کرادئیے گئے ہیں اور "Swiss Banks" میں بھی اثاثوں کے بارے میں ، ماہِ رواں کے آخر میں خوش خبری مِلے گی؟‘‘۔ معزز قارئین !۔ ہندی زبان میں مچھّی ( مچھلی) کے مذکر ، بڑی جسامت والے ، موٹی کھال والے ،لمبے جبڑے والے اور زمین پر بِل میں رہنے والے بحری / برّی جانور کو مچھّ ، مگرؔ / مگر مچھّ کہتے ہیں اور انگریزی میں "Crocodile" ۔ مگر مچھّ ، مر جائے یا اُسے کوئی مار دے تو ،اُس کی کھال سے جوتے اور بٹوے بنائے جاتے ہیں ۔ ہندو دیو مالا کے مطابق ۔ ’’ مچھ / مگر مچھ‘‘ ۔ وِشنو دیوتا کا پانچواں اَوتار ،ہے۔ مسلمان ، مچھّ / مگرمچھ ّ کو اَوتار نہیں مانتیلیکن، چونکہ وہ بہت طاقتور ہوتا ہے اُس سے دُور رہتے ہیں یا دُور رہ کر اُس کا شکار کرتے ہیں ۔ ہمارے فوجی حکمران بھی مگر مچھّوں کی سی طاقت رکھتے تھے لیکن، کبھی کبھی وہ اپنے ہی جال میں پھنس جاتے تھے ۔ طاقتور فوجی حکمران ہو یا منتخب وزیراعظم تو اُسے "Human Launderer" ( اِنسانوں کا دھوبی) کہا جاتا ہے۔ اُس کے زیر سایہ اگر اُس کے ہمنوا منی لانڈرنگ کریں بھی تو ، اُنہیں کھلی چھوٹ ہوتی ہے ؟۔ قوم اُس کے کردار کو پسند کرے نہ کرے اُسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جنرل محمد ایوب خان ، جنرل محمد یحییٰ خان ، جنرل ضیاء اُلحق ، جنرل پرویز مشرف چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ز کی حیثیت سے "Divine Right of Kings" کے تحت خُدائی اختیارات رکھتے تھے اور جب پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد 20 دسمبر 1971ء کو چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو، وہ دُنیا کے (اور پاکستان کے پہلے ) سِولین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کہلائے۔ چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو ، اُن کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو اور اُن کے ’’مجازی ‘‘ خُدا آصف زرداری نے کئی سال حکومت کی اور مسلم لیگ (ن) کے میاں نواز شریف تین بار وزیراعظم منتخب ہُوئے۔ اُن کے دَور میں کیا کچھ نہیں ہُوا؟۔ کالے دھن کو گورا بنانے کی اجازت دینا عام بات تھی۔ لندن باسی الطاف حسین کی ایم۔ کیو۔ ایم اور اُن کے بعد کی ایم ۔ کیو ۔ ایم کئی حکومتوں کی اتحادی رہی۔ الطاف حسین نے 10 دسمبر 2012ء کو لندن سے ویڈو لِنک کے ذریعے پاکستان میں ایم ۔ کیو۔ ایم کے قائدین اور کارکنوں سے خطاب کرتے ہُوئے ایک بار پھر برطانیہ اور پاکستان میں ایم ۔ کیو ایم کی رابطہ کمیٹیوں کو معطل کرتے ہُوئے انکشاف کِیا تھا کہ ’’ رابطہ کمیٹیوں کے بڑے ناموں( مہاجروں) نے کراچی میں پیسے کمائے اور آج دبئی میں اربوں / کھربوں روپے کمارہے ہیں ‘‘۔ اُن دِنوں وزیراعظم میاں نواز شریف تھے اور ایم ۔ کیو ۔ایم مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعت تھی۔ اِس سے قبل ایم ۔ کیو ۔ ایم پر کراچی میں بڑے پلاٹوں کو چھوٹے چھوٹے پلاٹوں میں تقسیم کر کے ناجائز طور پر فروخت کرنے کا الزام لگایا گیا تو، میڈیا نے اُسے "China Cutting" کا نام دِیا ۔ اِس پر مَیں نے 2 دسمبر 2015ء کو اپنے کالم میں لکھا کہ ’’ عوامی جمہوریہ چین تو ہمارا ( پاکستان کا ) دوست ہے ، اُسے کیوں بدنام کِیا جائے؟ ۔ کیوں نہ اُس کاروبار کو "Japan Cutting" یا "Britan Cutting" کہا جائے؟۔ 8 جون 2015ء کو آصف علی زرداری نے اسلام آباد کی ایک تقریب سے خطاب میں ’’ جرنیلوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے‘‘ کا اعلان کِیا اور پھر وہ، "Medical Leave" پر دُبئی میں مقیم ہوگئے ۔ مَیں نے لکھا تھا کہ ’’ دُبئی میں زرداری صاحب کا اپنا محل ہے اور اُن کی ایک ٹیلی فون کال پر اُن کی پارٹی کے سینئر راہنما سندھ حکومت کے خرچ یا اپنے خرچ پر دُبئی پہنچ جاتے ہیں ۔ دُبئی "Free Port" ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ’’آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری کی پارٹی "Dubai Cutting People's Party" کے نام سے مشہور ہو جائے گی؟‘‘۔ یکم جنوری 2016ء کو اسلام آباد میں ’’ آل پاکستان انجمن تاجران‘‘ سے خطاب کرتے ہُوئے وزیراعظم نواز شریف نے "New Tax Amnesty Scheme" کے تحت کالے دھن والوں کے لئے "Amnesty" (جُرم کی معافی) کا اعلان کِیا تو 3 جنوری 2016ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’ کالا دھن اور گورے لوگ‘‘۔ اُس سے دو سال اور تین ماہ بعد 5 اپریل 2018ء کو نااہل وزیراعظم نواز شریف کے "His Master's Voice" وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے کالے دھن والے لوگوں کو "Amnesty" دِی تو 7 اپریل 2018ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ۔’’ کالے دھن والوں کے گورے مسیحا۔ وزیراعظم عباسی ‘‘۔ مَیں نے لکھا تھا کہ ’’ سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور شیخ اعجاز اُلاحسن پر مشتمل لارجر بنچ کے پانچوں جج صاحبان کی طرف سے متفقہ طور پر وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے بعد ، پاکستان میں بڑی آہستگی سے "Judicial Revolution" (عدالتی انقلاب) شروع ہوگیا ہے! ‘‘ ۔ سوال یہ ہے کہ ’’ کیا ’’ کالے دھن‘‘ اور ’’ کالے دِلوں‘‘ والے لوگوں کے مسیحا بن کر ،گورے رنگ والے وزیراعظم عباسی اُس انقلاب کو، روک سکیں گے؟‘‘لیکن، میرا اندازہ غلط ثابت ہُوا۔ عدالتی انقلاب جاری و ساری ہے اور وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں وفاقی حکومت سپریم کورٹ سے پوراپورا تعاون کر رہی ہے ۔ 12 نومبر کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار ریمارکس اور جناب شہزاد اکبر کے اعلان کے بعد تو ، یقین کِیا جاتا ہے کہ احتساب کا عمل جاری رہے گا اورمگر مچھّوں کی کھالوں ؔکو کچھ نہ کچھ تو، گزند ضرور پہنچے گا؟۔ پرانے زمانے میں تو، بادشاہ لوگ کسی مجرم کی کھال اُدھیڑنے کا حکم دِیا کرتے تھے یا زندہ مجرم کے جسم سے اُس کی کھال اُتروا کر اُس میں بُھس بھروا دِیا کرتے تھے ۔بادشاہوں کے بعض خوشامدی اُن کی خدمت میں عرض کِیا کرتے تھے کہ ’’ بادشاہ سلامت! آپ ہماری کھالوں کی جوتیاں بنا کر بھی پہن لیں تو، ہم اُف نہیں کریں گے‘‘۔ 1257ء کو چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کِیا تو بغداد کی مسجدوں میں یہ بحث چل رہی تھی کہ ’’کوّا حلال ہے ؟ حرام یا مکروہ ‘‘۔ بنو عباس ؔکے آخری خلیفہ مُستعصم باللہ کے دَور میں اُس کا خاندان خوشحال تھا لیکن ، عوام مفلوک اُلحال اور خلیفہ اپنی فوج کو بھی تنخواہیں نہیں دیتا تھا ۔ ہلاکو خان نے اُسے شکست دے کر گائے کی کھال میں باندھ کر ، اُسے ٹھوکریں مار مار کر ہلاک کردِیا تھا ۔ معزز قارئین!۔ جب کوئی حکومتی ادارہ کسی مجرم کا پیچھا کرے ( تعاقب کرے ) تو، پنجابی میں اُسے کہتے ہیں ۔’’ مگر مگر جانا یا مگر ے مگرے پَے نا‘‘۔ ایک پنجابی فلم میں ہیرو نے ہیروئن سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ … تیرا پچھا نئیں چھڈّنا ، بھاویں لگ جان ہتھکڑیاں! …O… لیکن، سپریم کورٹ کو تو ، قانون اور وفاقی حکومت کو آئین یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ ، قومی دولت لوٹ کر غیر ملکوں میں لے جانے والے مگر مچھّوں کا محاسبہ کرے ۔ پھر عوام مگرمچھّوں کو دیکھ کر اُستاد ابراہیم ذوقؔ کا یہ مصرعہ یاد کریں گے کہ … آج تو، سب وہ، اگر اور مگر بھول گئے! …O…