کئی قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ کچھ اپنے لیے جیتے ہیں، کچھ دوسروں کے لیے اپنا آپ وقف کردیتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کو بھی جینے نہیں دیتے۔ اس مخلوق میں بڑی ورائٹی ہے۔ اللہ نے تو موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیا وہ دیکھے کون احسن عمل کر کے لایا ہے۔ اس سے پہلے کہ بات کسی اور طرف نکل جائے میں بتادوں کہ غزالی ٹرسٹ کے سید عامر محمود کا تعلق انہی خوش قسمت لوگوں میں ہوتا ہے جن کے دل میں انسانیت کا درد ڈال دیا گیا ہے اور وہ لوگوں کے لیے جیتے ہیں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ تراویح کی پابندی کروں، اسی لیے افطاریوں میں جانے سے اجتناب کرتا ہوں۔ سید عامر محمود نے کہا کہ آپ کی شرط قبول، آپ تراویح ضرور پڑھیں گے۔ مختصریہ کہ تقریب میں کھینچ کر لائے گئے۔ کیا اچھے اچھے لوگ وہاں موجود تھے۔ زیادہ تو کالم نگار، صحافی اور ادیب تھے۔ سید صاحب نے غزالی کے کارہائے نمایاں بتائے اور امجد صاحب سے کہا گیا کہ وہ مختصر کچھ اظہار کریں۔ باقی باتیں افطار کے بعد کریں گے۔ امجد اسلام امجد نے غزالی ٹرسٹ کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے اپنی مختصر نظم کی تین لائنیں پڑھیں۔ محبت ایسا دریا ہے کہ بارش روٹھ بھی جائے تو پانی کم نہیں ہوتا امجد صاحب نے محبت کے پھیلائو کی بات بھی کر رکھی ہے۔ محبت کے ذکر سے میرا دھیان شہزادہ ہیری اور میگھن کی شادی کی طرف چلا گیا کہ جس کے ان دنوں بڑے چرچے ہیں اور شادی کی اس تقریب میں پادری نے جو سرمن دیا اس میں اس نے محبت کا اتنی کثرت سے تذکرہ کیا کہ محسوس ہونے لگا کہ محبت کا جذبہ صرف انسانیت کو مطلوب ہے۔ وہ ہر فقرے میں Love Love پر ہی زور دے رہے تھے کہ پڑوسی سے لے کر تمام عالم انساینت تک اس محبت کی کارفرمائی ہے۔ تقریر بہت متاثر کن تھی مگر دوسری طرف فلسطینی بچوں کے کٹے پھٹے لاشے پردہ بصارت پر دستک دے رہے تھے۔ پھر وہ بھی سب کچھ سامنے آگیا جو کشمیریوں کے ساتھ ہورہا ہے انہیں اندھے کیا جارہا ہے۔ میں سوچنے لگا کہ کیا ان کے ہاں بھی محبت کے صرف تذکرے ہی ہیں یا پھر ان کی مسلمانوں کے ساتھ کوئی ’’خاص‘‘ محبت ہے۔ چلیے چھوڑیئے اس قضیے کو ہم تو ان سے محبت کرتے ہیں کہ ہمارے میڈیا پر تو یہی شاہی شادی چھائی رہی بلکہ بیک گرائونڈ میں لیڈی ڈیانا کی شادی کو بھی یاد کیا گیا۔ وہ شاہی خاندان صرف برطانیہ کا نہیں ہمارا بھی ہے۔ ’’کعبہ سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی۔‘‘ بات ہورہی تھی محبت کی تو ایک عملی محبت کا ثبوت تو غزالی ٹرسٹ دے رہا ہے جو بے لوث اور خالص ہے۔ ان کے کام کی ایک ہلکی سے جھلک دیکھئے۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ (G.E.T) پاکستان کے پسماندہ دیہی علاقوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں ہے۔ ٹرسٹ نے اپنا دائرہ 35 اضلاع میں 700 فارمل سکولوں تک وسیع کرلیا ہے جہاں 95000 سے زائد طلباء و طالبات، 4000 اساتذہ کے زیرنگرانی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ ان سکولوں میں 54000 سے زائد غریب اور نادار بچوں اور بچیوں کی تعلیمی کفالت بھی ٹرسٹ کے ذمہ ہے۔ دیہی علاقوں میں یتیم اور معذور طلباء و طالبات کی تعلیم و تربیت کا بندوبست ہے۔ غریب ہندو برادری کے لیے بھی سکول ہیں۔ ایک جدوجہد کا نام غزالی ٹرسٹ ہے۔ میں نے ان کے کام کی کچھ موویز بھی دیکھ رکھی ہیں۔ سید عامر محمود اصل میں ادب شناس بھی ہیں کہ کبھی وہ اظہارالحق صاحب کے ساتھ شام رکھتے ہیں تو کبھی ہمیں بلا کرمشاعرہ برپا کردیتے ہیں۔ ان سرگرمیوں سے یقینا ذہن و دل کو جلا ملتی ہے۔ یہ بھی محبت کا پھیلائو ہے۔ اظہار شاہین کا شعر یاد آگیا: تم کسی راستے سے آ جانا میرے چاروں طرف محبت ہے ایک میرا شعر بھی پڑھ لیں: میں محبت کو زندگی سمجھا اس محبت نے مارڈالا مجھے ویسے محبت مار بھی ڈالے تو بندے کو زندہ رکھتی ہے۔ محبت کی اعلیٰ سطح یقینا انسان سے محبت ہے۔ محفل میں امجد اسلام امجد، لطیف چودھری، اوریا مقبول جان، سلمان عابد، سجاد میر، رضوان رضی، حبیب اکرم اور قدسیہ ہما ایسے ہی دوست بیٹھے ہوں تو پھر کس کس موضوع پر بات نہیں ہوگی۔ غالب موضوع نوازشریف کی بغاوت ہی تھی۔ جب لکھنے والے مل بیٹھتے ہیں تو پھر باتیں آف دی ریکارڈ زیادہ ہوتی ہیں۔ سب متفق تھے کہ جس طرح نوازشریف آئے، سب اسی طرح آتے ہیں۔ یہ بڑی بلیغ رائے تھی۔ قریب سے اوریا مقبول جان صاحب نے کہا کہ ساحر لدھیانوی کا ایک شعر ہے، صحیح طرح شاید میں نہ لکھ سکوں: ہے جو ہمت تو دنیا سے بغاوت کردو ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیںشادی کرلو ان کے مقبول جہاں اور جیسے مائی باپ حکم دیتے ہیں آمنا و صدقنا کہنا پڑتا ہے۔ یہ ایک اوپن سیکرٹ ہے۔ اصل میں سیاستدان نے کبھی زمین پر پائوں جمایا ہی نہیں۔ اس نے کبھی ڈلیور نہیں کیا۔ جو بھی آیا اس نے بادشاہ بننے کی کوشش کی تو پھر بادشاہت تو ایک ہی کی ہوتی ہے۔ بادشاہت کا توڑ بادشاہت میں نہیں۔ ایک اچھی اور سچی جمہوریت ہوتی یا کوئی فلاحی اسلامی ریاست کے خدوخال ابھارے جاتے۔ لوٹ مار سے تو لوگوں کے دل نہیں جیتے جا سکتے۔ محل میں فرخ سہیل گوئندی، حافظ مظفر محسن، عمرانہ مشتاق مانی، فرخ وڑائچ اور نورالہدیٰ بھی موجود تھے۔ میرے پیارے قارئین! مجھے چلتے چلتے یہاں ایک اور افطاری کا ذکر کرنا ہے کہ وہ بھی اپنی مثال آپ تھی کہ معروف شاعرہ انمول گوہر نے رمضان کی پہلی افطاری اپنی سالگرہ کا اہتمام ایک مقامی ہوٹل میں کیا تھا۔ سالگرہ اتنی اہم نہیں تھی جتنا اس کا مقصد اہم تھا کہ اس نے اس خوشی میں سپیشل بچوں کو مدعوکر رکھا تھا، اس کا اپنا بچہ حمد بھی سپیشل بچہ ہے جو بہت خوبصورت ہے مگر اللہ کی منشا کہ وہ جسم کو حرکت تک نہیں دے سکتا۔ یہ بہادر خاتون اسے سنبھالتی ہے اور اپنے آپ کو اس بچے کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ اس تقریب میں صدارت میری تھی اور مہمانوں میں سید سلمان گیلانی، رئیس احمد، محمد عباس مرزا اور سلیم مجوکہ تھے۔ ہمارے مقصود چغتائی بھی مہمانوں میں تھے۔ خاص طور پر میاں افضل اپنے ’’شیلٹر انسٹیٹیوٹ‘‘ کے سپیشل بچوں کے ہمراہ آئے تھے۔ ہم نے خواہش ظاہر کی کہ ان سپیشل بچوں کی پرفارمنس دیکھی جائے، بچوں نے بڑے اعتماد کے ساھ تلاوت، حمد اور نعتوں سے محفل کو سرشار کیا۔ بچوں کی حوصلہ افزائی، نقد رقم اور تحفوں سے کی گئی۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹیں اور ہنسی دیکھ کر ہم نے بھی خوب لطف اٹھایا۔ اس محفل کا اصل پیغام یہ تھا کہ ہم ان سپیشل بچوں کو اپنی خوشیوں میں شریک کریں۔ رمضان کی مناسبت سے تو یہ اور بھی اچھا عمل تھا کہ ہر اچھے عمل کا اجر بڑھ جاتا ہے۔ اجر کی بات تو ضمناً آ گئی۔ سب سے بڑی بات تو اللہ کی رضا ہے جو ایسے اعمال کو پسند کرتا ہے۔ یہ معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ سپیشل بچوں کو احساس محرومی نہ ہونے دیں۔ ان کا حوصلہ بڑھائیں، ان کے لیے سہولتیں فراہم کریں۔ بہرحال انمول گوہر نے اپنی سالگرہ کو سپیشل بچوں کی تقریب بنا دیا۔ تاہم خواتین کی سنہری روایت کے تحت اس نے یہ بالکل نہیں بتایا کہ کون سی سالگرہ تھی۔ مجھے یاد ہے جب آصف شفیع نے خواتین کا انتخاب کلام کیا تو اکثر شاعرات نے اپنی پیدائش کا صرف مہینہ ہی بتایا۔ سال کسی کو یاد نہیں تھا۔ بہرحال وہ لوگ عظیم ہیں جو دوسروں کی مشکلات کا احساس کرتے ہیں۔ جن کی آنکھوں میں ہوں آنسو انہیں زندہ سمجھو پانی مرتا ہے تو دریا بھی اتر جاتے ہیں