کافی عرصہ یورپ میں گزارنے کے بعد میں پاکستان شفٹ ہوا تو دیگر بہت سے مسائل کی طرح ایک عوامی مسئلہ میری نظر سے گزرا وہ تھا پیدل چلنے والوں کی مشکلات۔ گھر سے باہر چلتے وقت ہم سبھی سڑک کا استعمال کرتے ہیں۔ گاڑی والا ہو یا موٹر سائیکل والا ، سائیکل چلانے والا ہو یا غریب ریڑھی والا سبھی سڑک استعمال کرتے ہیں۔ لہذاجہاںسڑکوںپہ بے پناہ رش ہے تو وہیں پیدل چلنے والے افراد کی بھیڑ اور رش بھی بہت زیادہ ہے۔ میں پاکستان میں ٹریفک کے مسائل پہ اکثر لکھتا رہتا ہوں جس میں بڑھتی ہوئی آبادی اور اسکے نتیجے میں سڑکوں پہ گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا ذکر با رہا موجود ہے۔ آج جس مسئلے کو لے کر میں نے قلم اٹھایا ہے وہ سڑک کنارے پیدل چلنے والے افراد اور انکی مشکلات سے متعلق ہے۔ چند دن پہلے میں اپنے گھر کے قریب بازار سے کچھ خریداری کرنے نکلا۔ وقت بچانے کی غرض سے میں نے گاڑی کی بجائے پیدل جانے کو ترجیح دی کہ واک بھی ہو جائے گی اور خریداری بھی۔ لیکن مجھے اس وقت شدید کوفت کا سامنا کرنا پڑا جب سڑک پار کرنے کیلئے کافی دیر انتظار کرنا پڑا۔ مری روڈ پہ ٹریفک کا دباؤ بہت زیادہ تھا اور مجال ہے کہ کوئی گاڑی مجھے یا میرے ساتھ کھڑے دیگر افراد کو راستہ دینے کیلیے چند سیکنڈز کیلیے ہی رکی ہو۔ گاڑیاں ، بسیں، ویگنز، موٹر سائیکل سوار سبھی تیز رفتاری سے آگے کی جانب رواں دواں تھے اور متعدد بار ہاتھ کا اشارہ کرنے پہ بھی کسی نے راستہ دینے کی زحمت نہیں کی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے معاشرے میں بے حسی کتنی بڑھ چکی ہے اور ہم محض چند سیکنڈز کیلیے بھی کسی دوسرے کیلیے نہیں رک سکتے۔ اس وقت میرے ذہن میں جرمنی ، اٹلی ، فرانس وغیرہ کی سڑکوں کا نقشہ گھوم رہا تھا جہاں تمام ٹریفک کے ہوتے ہوئے کوئی کسی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا اور سب بنا کسی مشکل اور پریشانی کے اپنے اپنے راستے پہ گامزن رہتے ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ ٹریفک کا بہترین نظام اور اسکا اطلاق ہے۔ یورپی ممالک/ ترقی یافتہ ممالک میں سڑکوں پر باقاعدہ منظم و مربوط نظام ہے جو ہمہ وقت سبک روی سے جاری رہتا ہے۔ گاڑیوں کیلیے الگ راستہ ، ہیوی وہیکلز کیلئے الگ راستہ، موٹر سائیکل سواروں کیلیے الگ راستہ موجود ہوتا ہے۔ سبھی لوگ اپنی اپنی لائن میں چلتے ہیں اور کوئی کسی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ خاص طور پر پیدل چلنے والے افراد اور معذور افراد کیلئے الگ لائن مختص ہوتی ہے نیز سائیکل سوار افراد کیلئے بھی سڑک پہ باقاعدہ بڑے بڑے نشانات ہوتے ہیں جو انکی راہنمائی کرتے ہیں کہ یہ انکی لائن ہے اور انہیں صرف اسی پر اپنی سائیکل چلانی ہے۔ اسکے علاؤہ جگہ جگہ ٹریفک سگنلز اور ان میں پیدل افراد کی نشاندھی کرتے اشارے اور لائٹس، اور زیبرا کراسنگ کے نشانات اور مقامات سبھی ٹریفک کو کامیابی سے رواں دواں رکھنے میں انتہائی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ سب لوگ ان قوانین کا احترام کرتے ہیں اور نافرمانی کرنے والوں کو بھاری جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ ٹریفک کے بین الاقوامی قوانین کے مطابق بھی سڑک پہ پیدل چلنے والوں کا پہلا حق ہوتا ہے کہ انہیں گزرنے کیلئے راستہ دیا جائے۔ لیکن وطن عزیز میں صورت حال بالکل اس کے برعکس ہے۔ سڑک پر پیدل چلنا اور سڑک پار کرنا کسی خطرناک محاذ سے کم نہیں۔ پاکستان میں ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہونے والے افراد میں کثیر تعداد پیدل چلنے والوں کی بھی ہے۔ اکثر افراد تیزی سے بھاگ کر سڑک پار کرنے کی کوشش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ شہر، گلی اور محلے کی سڑکوں پہ تو لوگ بھاگ کر سڑک پار کرنے کی کوشش کرتے ہی ہیں لیکن یہ منظر میں نے بارہا موٹر وے پہ بھی دیکھا ہے کہ ساتھ کی ملحقہ آبادیوں کے لوگ موٹر وے کو تیزی سے بھاگتے ہوئے عبور کرتے ہیں جو شدید خطرناک ہے۔ پاکستان میںٹریفک کے نظام میں جو متعدد نقائص ہیں وہیں سب سے بڑا مسئلہ پیدل چلنے والوں کیلئے الگ راستوں/ فٹ پاتھ کا نا ہونا ہے۔ اگر سڑک کنارے فٹ پاتھ موجود بھی ہے تو وہاں بھی سائیکل سوار ، موٹر سائیکل حتی کہ سبزی پھل بیچنے والے ریڑھی بانوں نے اپنا الگ بازار لگایا ہوتا ہے۔ فٹ پاتھ پہ کوڑے کے ڈھیر، کچرے اور شاپرز کی بھرمار کے ساتھ ساتھ جا بجا بیٹھے فقیروں نے پیدل چلنے والوں کا راستہ مزید دشوار کیا ہوتا ہے۔ بازاروں کی گلیوں میں، اندرون راستوں پر جو صرف پیدل چلنے والے افراد کیلئے مختص ہوتی ہیں وہاں بھی موٹر سائیکل سواروں کی بھرمار ہوتی ہے اور غلط پارکنگ کرنے والوں کی وجہ سے چلنا دوبھر ہو جاتا ہے۔ لیکن یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اس معاملے میں کچھ حد تک پیدل چلنے والے افراد کا بھی قصور ہے۔ وہ بڑی شاہراہوں پر ان راستوں کا انتخاب کرنے کی بجائے جو انکے لیے مخصوص ہیں،شارٹ کٹ ڈھونڈنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مختلف شہروں خصوصاً لاہور،کراچی، راولپنڈی، اسلام آباد جیسے بڑی آبادی والے شہروں میں اکثر شاہراہوں/ سڑکوں پر پیدل چلنے والوں کیلیے اوور ہیڈ بریج بنائے گئے ہیں جنکا مقصد پیدل چلنے والے افراد کو بحفاظت سڑک کے ایک جانب سے دوسری جانب پہنچانا ہے۔ انکی سیڑھیوں اور گزرگاہ کی پل کو ہر طرف سے اونچی سلاخوں اور لوہے کی جالیوں سے محفوظ بنایا جاتا ہے تاکہ کوئی راہگیر یا مسافر گر نا جائے۔ لیکن اسکے باوجود لوگوں کی اکثریت اوپر سے جانے کی بجائے نیچے سے ہی شارٹ کٹ ڈھونڈنے کے چکر میں ہوتی ہیں۔ ان تمام مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے سڑکوں کو کشادہ کرنے کیساتھ انکے اطراف پیدل چلنے والوں کیلیے الگ راستے بنائے جائیں۔ زیبرا کراسنگ کو ترویج دی جائے اور ٹریفک سگنلز کیساتھ پیدل چلنے والے افراد کی رہنمائی کیلیے الگ اشاروں اور لائیٹس کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔ نیز محلوں، بازاروں اور شاہراہوں وغیرہ میں کارپارکنگ کے لیے الگ جگہوں کو مختص کیا جائے۔ گلی محلے اور بازاروں میں صفائی ستھرائی کے نظام کو بہتر ہے بہترین کیا جائے تاکہ گزرگاہیں زیادہ سے زیادہ صاف اور کشادہ ہوں اور پیدل چلنے والوں کو بآسانی راستہ میسر ہو۔