کورکمانڈر زکانفرنس کے شرکا نے بھارت کے مظالم کے خلاف پرعزم کشمیریوں کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے تنازع کشمیر پر عالمی برادری کی آگاہی میں اضافے کو مثبت قرار دیا ہے۔ آئی ایس پی آر کی جاری کردہ تفصیلات کے تحت آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں عالمی کرکٹ کی واپسی اور امن و امان کی صورت حال میں بہتری دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے علاقائی امن کے لیے افغانستان میں استحکام کو ضروری قرار دیا۔ کور کمانڈر زکانفرنس کا محور عموماً وہ معاملات ہوتے ہیں جو ملک اور خطے کی سکیورٹی پر انداز ہوں۔ بلاشبہ پاکستان کے سکیورٹی مسائل کشمیر اور افغانستان کی صورت حال سے جڑے ہیں۔ یہ دونوں معاملات پرامن طریقے سے حل ہو جائیں تو ملک معاشی اور سماجی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کا یہ موقف رہا ہے کہ کشمیر اور افغانستان کے تنازعات کو جنگ کی بجائے پرامن طریقوں سے طے کیا جائے۔ ان دونوں تنازعات کے لیے ریاست کی پالیسی اسی اصول پر استوار کی گئی ہے۔کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی کوششوں کو بھارتی رویے نے نقصان پہنچایا۔ یہ بھارت تھا جو پہلے اقوام متحدہ میں گیا اور جنگ بندی کے بدلے تنازع کشمیر مقامی باشندوں کی منشا کے مطابق حل کرنے کا وعدہ کیا۔ یہ وعدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کیا گیا۔ اس وعدے پر پاکستان نے عالمی برادری کی ضمانت پر فوجی پیش قدمی روک دی۔ ایک بڑی اور ذمہ دار ریاست کے طور پر بھارت کے لیے لازم تھا کہ وہ اس وعدے کی پاسداری کرتا لیکن اس نے تصادم اور جنگ کا راستہ اختیار کیا۔ کشمیر پر سلامتی کونسل کی واضح قراردادوں کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان چار جنگوں کا ہونا ثابت کرتا ہے کہ جنوبی ایشیا کا امن اس وقت تک دائو پر لگا ہے جب تک یہ تنازع حل نہیں ہو جاتا۔ عمران خان وزیراعظم بنے تو انہوں نے مودی حکومت کو مذاکرات کی دعوت دی‘ کوئی جواب نہ ملنے کے باوجود پاکستانی قیادت نے یہ پیشکش وقفے وقفے سے جاری رکھی۔ اس ماحول میں پاکستان نے اعتماد سازی کے لیے متعدد اقدامات کئے۔ کرتار پور راہداری کی تعمیر ان میں سے ایک اہم سنگ میل ہے۔ اس معاملے کا ایک پہلو یہ ہے کہ مسلح افواج نے ضرورت پڑنے پر جہاں بھارت کہ منہ توڑ جواب دیا وہاں دو سے زائد بار خود آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھارت کو پرامن طریقوں سے کشمیر سمیت تمام تنازعات حل کرنے کا کہا۔ افغانستان کا مسئلہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس سے کئی ریاستیں بیک وقت منسلک ہیں۔افغانستان میں بدامنی کا اثر ان تمام ہمسایہ ریاستوں پر منفی انداز میں مرتب ہوتا ہے۔ پاکستان نے امریکہ کے اتحادی کے طور پر افغانستان پر قابض سوویت یونین کے خلاف موثر کردار ادا کیا۔ اس کے نتیجے میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی نے خود پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد پاکستان نے اپنے تئیں افغانستان میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی۔ عشروں سے خانہ جنگی میں مصروف افغانوں کو امن نصیب ہوا۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تو پاکستان نے ایک بار پھر بین الاقوامی امن کی خواہاں ذمہ دار ریاست کے طور پر امریکہ اور اتحادی ممالک کا بھرپور ساتھ دیا۔ جونہی یہ جنگ اختتام کے قریب پہنچی بھارت نے امریکہ سے تزویراتی تعلقات استوار کرلیے۔ ان تعلقات میں اس امر کو اہمیت حاصل ہے کہ افغان سرزمین پر بھارت کا اثر و رسوخ بڑھایا جائے۔ چند روز قبل اقوام متحدہ کے تحقیقاتی گروپ نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ بھارت افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اس سے پہلے ڈس انفولیب رپورٹ کے ذریعے سے دنیا آگاہ ہو چکی ہے کہ بھارت نے کسی طرح جعلی این جی اوز‘ میڈیا اداروں اور ویب سائٹس کے ذریعے پاکستان کو بدنام کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ پاکستان کشمیر اور افغان تنازعات کی وجہ سے ایک سکیورٹی ریاست بن چکا ہے۔ یہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ سیاسی و عسکری قیادت اپنی ذمہ داریوں کا خیال کرے۔ اس صورت حال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ تنازعات کے متعلق فوج کے کردار کو کئی چیلنج مقامی سطح پر درپیش ہیں۔ سیاسی جماعتیں قومی و بین الاقوامی مسائل اور خطے کی سکیورٹی کی دلچسپی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اکثر سسیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت کی توجہ مخالفین کے خلاف نفرت آمیز مہم پرلگی نظر آتی ہے۔ امن قائم کرنے کا طریقہ صرف فوج او ر پولیس کے پاس نہیں ہوتا۔ سول انتظامیہ اور حکومت بھی دانشمندی کے ساتھ حجم میں قلیل مواقع کو بڑے فائدوں میں تبدیل کرنے کی صلاحیت بروئے کار لا سکتی ہے۔ یہ بجا ہے کہ بین لاقوامی کرکٹ کی واپسی سے پاکستان ایک پرامن ملک کے طور پر دنیا کے سامنے آرہا ہے لیکن یہ امن راتوں رات حاصل نہیں ہوا۔ سول اور عسکری سکیورٹی اداروں کے ہزاروں سپاہیوں نے اس گلشن کے تحفظ کے لیے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ سکیورٹی کی داخلی صورت حال بہتر ہونے پر معیشت اور سماجی شعبے میں بہتری کے امکانات پیدا ہوئے ہیں تاہم ان امکانات کو مزید روشن کیا جا سکتا ہے۔ امن ایک موقع ہوتا ہے۔ پاکستان ایسے مزید مواقع کھونے کا متحکمل نہیں ہو سکتا اس لیے سیاسی رہنمائوں کو کم از کم قومی اور بین الاقوامی معاملات پر اتفاق رائے کا حامل ہونا چاہیے۔