مجھے اعتراف ہے کہ میں بینکوں‘ ہوٹلوں‘ شاپنگ مالوں اور بڑے بڑے پرشکوہ اور شاندار اداروں کے باہر‘ سکیورٹی گارڈ کو موسم کی سختیاں برداشت کرتے ہوئے ڈیوٹی پر مامور دیکھتی ہوں۔ سکیورٹی گارڈز کو دیکھتے ہوئے کہ کیسے آتے جاتے کو سلام کرتے ہیں‘ دروازے کھولتے ہیں‘ چند ہزار کی تنخواہ پا کر اپنی جان ہتھیلی پر لیے کھڑے رہتے ہیں۔ تو گوناگوں مصروفیات میں جکڑا ہوا میرا دل بھی ان کے لیے درد اور احساس کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں کہوں کہ پلیز آپ میرے لیے دروازہ نہ کھولیں۔ پلیز آپ مجھے سلیوٹ نہ کریں۔ کبھی یہ بھی جی چاہتا کہ انہیں ٹھنڈا جوس یا کھانے کے لیے کچھ پیش کر کے ان کا شکریہ ادا کیا جائے۔ مگر یہ سارے احساسات دل کے اندر اور ایک مدوجزر کی ابھرتے اور ڈھلتے ہیں اور ان کا دورانیہ بس اتنی ہی دیر رہتا ہے جب تک میں اس منظر کا حصہ رہوں‘ جونہی میں زندگی کے کسی اور منظر میں قدم رکھتی ہوں وہ مستعد کھڑا ہوا دروازہ کھولتا‘ سلام کرتا ہوا سکیورٹی گارڈ میری نظر سے اوجھل ہوتا ہے تو احساس کا وہ مدوجزر تھم جاتا ہے اور درد کی وہ رمق کہیں کھو جاتی ہے۔ شاید اسی لیے آج تک یہ پسے‘ مظلوم کردار میری تحریر کا موضوع نہ بن سکے۔ حالانکہ ابھی پچھلے مہینے بینک کے اندر جاتے ہوئے میں نے سفید داڑھی والے ادھیڑ عمر سکیورٹی گارڈ کو اپنے لیے دروازہ کھولتے ہوئے دیکھا تو میں دل ہی دل میں بہت شرمندہ ہوئی‘ بینکوں کے اندر جہاں ہمہ وقت کروڑوں کا لین دین ہوتا ہے۔ وہاں باہر چند ہزار کی تنخواہ لینے والا سکیورٹی گارڈ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے یہ نوکری نہیں کررہا سزا کاٹ رہا ہے۔ آپ اس سے اتفاق کریں یا نہ کریں مگر مجھے یہ سب غیر انسانی اور in human سا لگتا ہے۔ جیسے دریا کے پاس پیاسے کی ڈیوٹی لگا دی جائے۔ یا پھر دیگر کی حفاظت کے لیے بھوکے کو بٹھا دیا جائے۔ یہ منظر بھی کچھ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ بینکوں کی عالی شان عمارتیں‘ سرد اور گرم موسم کے مطابق ایئرکنڈیشنگ کی آسودگی‘ اربوں کے کڑکڑاتے نوٹوں کا لین دین‘ بڑی بڑی گاڑیوں سے اترتے‘ بینک کے اندر داخل ہوتے ہوئے دولت مند لوگ اور ان سب کی حفاظت پر مامور انیس‘ بیس ہزار کی تنخواہ پانے والا‘ موسم کی سختیاں سہتا ہوا‘ سکیورٹی گارڈ‘ جو کسی بھی ممکنہ خطرے کا سب سے پہلا نشانہ ہوتا ہے اور کسی بھی حملے جس کی صورت میں وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کروڑوں اربوں کی مالیت والے بینکوں کو بچانے کی کوشش میں اپنی بے قیمت جان وہیں سڑک پر دے دیتا ہے۔ فرض شناسی کی انتہا میں جاں فروشی سے گزرنا ہی اس کے لیے فرض عین ہے۔ اس کی بہادری اور جاں فروشی کو کسی اخبار کی یک کالمی خبر میں ضرور خراج تحسین پیش کر دیا جاتا ہے اس کے بعد اس کی ذات سے جڑے ہوئے رشتوں پر کیا گزرتی ہے۔ یہ ساری داستان الم ہماری نگاہوں سے اوجھل ہی رہتی ہے۔ آج کی اخبار میں ہی ایسے ہی تین بہادروں اور جاں فروشوں کی تصاویر لگا کران کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ یہ تصاویرکراچی سٹاک ایکسچینج پر ہونے والے دہشت گردی کے حملے میں جان سے گزرنے والے پرائیویٹ سکیورٹی گارڈز کی ہیں۔ ایک پولیس کے اہلکار بھی اس میں جان سے گزر گئے۔ ان کی بہادری کو سوشل میڈیا پر بھی خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے۔ واہ واہ جان پر کھیل کر اربوں روپے کے کاروبار کو بچایا۔ اس پس منظر میں فیس بک پر حیدر حسن کی ایک پوسٹ نظر سے گزری۔ 19 ہزار روپے کی تنخواہ پانے والے سکیورٹی گارڈز نے جان دے کر 15 ارب روپے کی ٹریڈنگ بچائی۔ ان کے لواحقین کو معاوضہ دیا جائے۔ سوشل میڈیا پر اس کے حق میں مہم چلانی چاہیے تاکہ وہ غریب سکیورٹی گارڈز جو چند ہزار کی تنخواہ گھر لے کے جاتے تھے اور اس سے ان کا کاروبار حیات وابستہ تھا۔ چولہا جلتا تھا‘ دوائیں آتی تھیں‘ گھر کا کرایہ ادا ہوتا تھا‘ اب ان کے مرنے کے بعد ان کے لواحقین کو کم از کم اتنے پیسے ضرور دینے چاہئیں کہ کوئی چھوٹا موٹا کام شروع کرسکیں۔ ان کی اولاد میں کسی کو نوکری دینی چاہیے اور یہ ان کی جاں فروشی اور فرض شناسی کا کم سے کم صلہ ہوگا۔ ظاہرہے قیمتی جان کا معاوضہ کبھی روپے پیسے صورت میں ادا نہیں ہوسکتا۔ کراچی سٹاک ایکسچینج پر ہونے الے دہشت گردی کے خطرناک حملے کو اگر نہ روکا جاتا تو اس صورت میں اندازہ لگائیے کہ کیا نقصان ہوسکتا تھا۔ کراچی سٹاک ایکسچینج جہاں دولتمندوں کے اربوں روپے کے کاروبار پھلتے پھولتے ہیں اور یہ دولت مند ایک وقت کھانے پر کئی سکیورٹی گارڈز کی تنخواہ کے برابر رقم پھونک دیتے ہیں۔ ان سب کی بھی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ان غریبوں کے گھروں میں جا کر لواحقین سے دلی تعزیت کا اظہار کریں۔ ان کے غم میں ان سے اظہار یکجہتی کریں۔ ان کے خستہ حال مکانوں سے جھانکتی ان کی ضرورتوں کی کہانیاں پڑھیں اور دل کھول کر ان کی ہر سطح پر مالی مدد کریں جنہوں نے اپنی جان دے کر اربوں روپے کے کاروبار کو بچایا۔ اور آخر میں ایک درخواست یہ ہے کہ کوشش کریں کہ جب بھی زندگی میں ایسے کرداروں کا سامنا ہو تو اپنے رویے میں عاجزی پیدا کریں۔ چہرے پر مسکراہٹ لا کر ان کے سلیوٹ سے پہلے ان کو سلام کردیں۔ ان کا حال احوال پوچھ لیں۔ گرم موسم میں کبھی کوئی ٹھنڈا جوس ان کو پیش کردیں۔ چپکے سے مٹھی میں کچھ رقم رکھ دیں اور آنکھیں ملائیں بغیر واپس آ جائیں۔ دریا کے پاس کھڑے ہوئے یہ پیاسے لوگ ہمارے احساس‘ خیال اور مہربانی کے مستحق ہیں۔ ٭٭٭٭٭