میں بارہ تیرہ برس کا تھا جب پہلی بار کسی سیاسی قیدی کو دیکھا، کسی کے ساتھ میو اسپتال گیا تھا، شدید گرمی کے دن تھے، مریض کی عیادت کے بعد واپس آتے ہوئے ایک لحیم شحیم شخص زنجیروں میں جکڑا ہوا اسپتال کے وارڈ کے دروازے پر لیٹا ہوا تھا، گورے چٹے رنگ کا چالیس برس کی عمر کا یہ قیدی پسینے سے شرابور تھا، وردیوں میں ملبوس کئی پولیس اہلکاروں نے اس کے ارد گرد آہنی زنجیروں کی طنابیں سختی سے ہاتھوں میں تھام رکھی تھیں، یہ زمانہ تھا ایوب خان کی آمریت کا، نام نہاد سول حکومت کا، میں اپنے ہمراہی کے ساتھ وہیں رک گیا، اس مقام پر اس قیدی کو دیکھنے والوں کا ہجوم تھا، لوگوں کی باتوں سے جب علم ہوا کہ یہ کوئی عام یا روایتی قیدی نہیں، سیاسی قیدی ہے، جرم ہے اس کا آمریت کے خلاف بغاوت۔ ایوب خان کے خلاف نظمیں لکھتا ہے اور اسپتال کے فرش پر اس لئے لیٹا ہے کہ شوگر اور بلڈ پریشر کا مریض ہے، بیماری کے باعث اسپتال لایا گیا ہے مگر اسپتال کے وارڈ میں ایک تو کوئی پنکھا نہیں ہے اور دوسرا اس کے سائز کا کوئی بیڈ نہیں جس پر اسے لٹایا جا سکے۔ جیلیں اس شخص کا دوسرا گھر ہیں، جب بھی اسے رہائی ملتی ہے وہ حکومت کے خلاف پھر کوئی مضمون کوئی نئی نظم لکھ دیتا ہے اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کی پروا کئے بغیر پھر ’’پس دیوار زنداں‘‘ پہنچ جاتا ہے، بہت سارے دوست جان گئے ہوں گے کہ اس سیاسی قیدی کا نام کیا تھا، جی ہاں! میں ذکر کر رہا ہوں اپنے عہد کے عظیم دانشور اور خطیب آغا شورش کاشمیری کا، جب مجھے اس لمحے اس زنجیر بکف بہادر قیدی کے نام کا علم ہوا تو ان کا سارا پس منظر میرے دماغ میں گھوم گیا۔ میں ان کا ذکر درجنوں بار اپنے والد اور ان کے دوستوں کی زبانی سن چکا تھا۔ میرے والد اورآغا صاحب کچھ سالوں کے وقفہ سے پیسہ اخبار انارکلی میں پیدا ہوئے۔ دونوں اسکول فیلو بھی رہے، دونوں ایک ساتھ مجلس احرار میں میں شامل ہوئے اور امیر شریعت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کی اطاعت کی، دونوں دوستوں کو علامہ اقبال کا مکمل کلام ازبر تھا، دونوں مولانا ابوالکلام کے عقیدت مند تھے۔ ہاشمی صاحب نے تو پیسہ اخبار میں حافظ امرتسری کی بٹنوں کی دکان کے قریب ایک بیٹھک کرایہ پر لے کر وہاں ایک بہت بڑا بورڈ آویزاں کر دیا تھا، جس پر لکھا تھا ’’سازش کدہ‘‘ پورے ہندوستان سے صرف سازش کدہ لاہور لکھ دینے سے خطوط وہاں پہنچ جایا کرتے تھے۔ نعیم ہاشمی صاحب قیام پاکستان سے سال دو سال پہلے ہی تائب ہو کر فلم نگر کے سفر پر روانہ ہوگئے، مگرآغا شورش کاشمیری اپنی جگہ پوری استقامت سے ڈٹے رہے۔ میں ان کا غائبانہ مداح تھا، جب کتابیں پڑھنے کا شوق پروان چڑھا توآغا صاحب کی جس پہلی کتاب کا مطالعہ کیا وہ تھی’’اس بازار میں‘‘ اس کتاب کا حاصل مطالعہ کچھ یوں تھا،،،،،، ’’اس بازار کی عورتیں ہر دور میں ایک انقلابی کردار بھی ادا کرتی ہیں، وہ اپنے اپنے ادوار میں معاشرے کی رجعت پسند قوتوں کی تباہی اور بربادی میں ایک اہم عنصر ہوتی ہیں، وہ ان وڈیروں اور سرمایہ داروں سے انتقام لیتی ہیں جو مزدوروں کو ان کی محنت کا پورا اجر نہیں دیتے، وہ عیاش جاگیردار طبقے سے اپنے مزارعین کے معاشی استحصال کا بدلہ لیتی ہیں، اس طرح اس بازار میں رہنے والیاں استحصالی طبقات کی ناجائز دولت کو گردش میں رکھتی ہیں، جس کے باعث معیشت کی چکی قدرے آسانی سے چلتی ہے‘‘ قلم بک رہے ہیں، نوا بک رہی ہے چمن بک رہے ہیں، صبا بک رہی ہے ادھر جنس بازار میں، ماہ و پرویں ادھر عارضوں کی، حیا بک رہی ہے ادھر مہر و مہ ہیں، اندھیروں کی زد میں ادھر مہ وشوں کی، ردا بک رہی ہے پھر وہ زمانہ بھی آیا جب میں نے آغا شورش کاشمیری کی باتیں سننے کے لئے باقاعدگی کے ساتھ ’’کافی ہاؤس‘‘ جانا شروع کر دیا، یہ ریستوران ادیبوں اور شاعروں کی بڑی بیٹھک کا مقام رکھتا تھا، آغا صاحب وہاں بڑے بڑے نام رکھنے والے ادیبوں اور شاعروں پر چھائے ہوئے دکھائی دیتے۔ وہ واقعی دنیائے ادب و سیاست کی ایک دیو قامت شخصیت تھے، وہاں زیادہ تر بحث الفاظ کی درستگی پر ہوتی، اگر کوئی غلط لفظ کی ادائیگی پر اڑ جاتا توآغا صاحب اپنے گھر سے ڈکشنریاں منگوا لیتے، ان کا گھر کافی ہاؤس سے زیادہ دور نہیں تھا، ان کی گفتگو ان کے وسیع تر مطالعہ اور عملی تجربات کا عکس ہوتی دار و رسن کی گود میں پالے ہوئے ہیں ہم سانچے کے مشکلات کے ڈھالے ہوئے ہیں ہم وہ دولت جنوںکہ زمانے سے اٹھ گئی اس دولت جنوں کو سنبھالے ہوئے ہیں ہم پھر میری زندگی کا ایک نیا دور اس وقت شروع ہوا جب میں نے صحافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا، پہلی نوکری ایک سال ہی چل سکی، سن ستر کی دہائی کا آغاز ایک پرآشوب سیاسی دور کی ابتدا تھی، روزنامہ آزاد عوامی لیگ اور شیخ مجیب الرحمان کا ترجمان تصور کیا جاتا تھا، مشرقی پاکستان کی علیحدگی اس اخبار کی موت کا باعث بھی بنی۔ میں اس اخبار میں روزانہ بچوں کیلئے کہانی لکھا کرتا تھا۔ لکھنے کی لت کسی بھی دوسرے نشے سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے، ادھر ادھر ہاتھ مارے مگر مرضی کی جاب نہ مل سکی، والد صاحب چونکہ مشہور و معروف فلم ایکٹر کا مقام حاصل کر چکے تھے لہذا جس اخبار کا بھی رخ کرتا وہ مجھے فلمی صحافی بنانے کی کوشش کرتا جو مجھے گوارا نہ تھا۔میں سماج کا لکھاری بننا چاہتا تھا، جب کہیں بس نہ چلا تو والد صاحب سے عرض کیا کہ وہ آغا شورش کاشمیری صاحب کو کسی بڑے اخبار میں میری ملازمت کے لئے کہیں۔ابا جی نے ایک دن بتایا کہ ان کی آغا صاحب سے بات ہو گئی ہے اور میں ان سے ’’چٹان‘‘ کے آفس جا کر مل لوں۔ میں دوسرے ہی دن آغا صاحب کی خدمت میں حاضر ہو گیا، انہوں نے ایک سرسری سی نگاہ مجھ پر ڈالی اور پھر گویا ہوئے،،، میں تمہارے لئے مجید نظامی صاحب سے بات کروں گا۔ دو چار دن بعد میں پھرآغا صاحب سے ملنے پہنچ گیا، وہ ’’چٹان‘‘ کے دفتر میں حسب معمول کچھ لکھنے میں مصروف تھے، مجھے انہیں اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لئے ’’چاچا جی‘‘ کا لفظ بولنا پڑا، انہوں نے اپنی محویت کے باعث مجھے دیکھنا بھی گوارا نہ کیا اور بولے،، میری ابھی نظامی صاحب سے بات نہیں ہو سکی،، یوں میرے چٹان آفس میں جانے کا سلسلہ ایک ماہ تک جاری رہا۔پھر ایک دن کیا ہوا؟ میں ان کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ اپنی لکھنے کے معمول کی مصروفیت کے باوجود قلم روک کر پوری طرح میری جانب متوجہ ہو گئے،،،،،،، اوئے، تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ تم سوشلسٹ ہو؟۔۔۔۔۔۔ سوشلسٹ؟ میرے جواب پر ان کی زبان میں سختی آگئی، پوچھنے لگے،،،،، کیا تم ایرک سپرین کے شاگرد نہیں ہو؟ کیا تم شاہ حسین کالج میں نہیں پڑھ رہے؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو ان کی آواز میں اور گونج آگئی،،،،، تو پھر تم سوشلسٹ نہیں ہو تو پھر کیا ہو؟ میں نے کل نظامی صاحب سے تمہاری نوکری کی بات کی تو انہیں تمہارے بارے میں سب علم تھا۔ اس سے پہلے کہ بات اورآگے تک جاتی میں تیزی کے ساتھ ان کے کمرے سے باہر نکل گیا،،،،،،،،،آغا شورش کاشمیری چوالیس سال پہلے ہمیں داغ مفارقت دے گئے تھے،آج ان کے بارے میں لکھتے ہوئے سوچ رہا ہوں، سوشلسٹ میں تھا یا وہ خود؟ بے شک آغا صاحب تحریک ختم نبوت کے سب سے بڑے داعی تھے لیکن ان کی شاعری پڑھتا ہوں تو لگتا یہی ہے کہ جیسے وہ بہت سارے سوشلسٹوں سے بڑے سوشلسٹ بھی تھے۔ ناؤ منجدھار میں بے خوف و خطر کھیلے گی ناخدا بربط طوفاں پہ رجز خواں ہوں گے راہرو اپنی مسافت کا صلہ مانگیں گے راہنما اپنی سیاست پہ پشیماں ہوں گے