سی ایس ایس (سنٹرل سپیریئر سروسز) کا مقابلے کا امتحان سر پر ہے۔ فروری 2020ء میں فیڈرل پبلک سروسز کمیشن کے زیراہتمام یہ امتحان ہوگا۔ ہزاروں طلباء دن رات تیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ مجھ سے انگریزی بڑھنے والے طلباء بھی خاصی تعداد میں ہیں۔ بہت سے طالب علم فون پر بھی اپنے مسائل کا حل پوچھتے رہتے ہیں لیکن کچھ ایسے مسائل ہیں جن کی ذمہ داری کمیشن پر ہے۔ ان مسائل کو کمیشن ہی حل کرسکتا ہے۔ یہ بڑے سنجیدہ مسائل ہیں۔ میں نے ورلڈ ٹائم میگزین میں اکثر ان کا ذکر کیا ہے لیکن کمیشن والوں کے بہرے کانوں میں میری آواز نہیں پہنچتی۔ مجبوراً اب میں نے کالم کا سہارا لیا ہے۔ میں انگریزی کا ٹیچر ہوں لہٰذا صرف انگریزی کی بات کروں گا۔ مجھے یہ بات کرنے کا حق بھی ہے اس لیے کہ مجھے ہر سطح پر انگریزی پڑھاتے ہوئے تقریباً پچاس سال ہو گئے ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے (اور ہمیشہ سے ہے) کہ کمیشن انگریزی کے سلسلے میں طلباء کے لیے ایک خوف کی علامت بن چکا ہے۔ طلباء گھبرا کر اساتذہ سے پوچھتے ہیں لیکن ہمارے پاس بھی ان مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔ ہم کمیشن سے صرف گزارش ہی کرسکتے ہیں یا پھر طلباء سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ کمیشن کے سامنے دھرنا دیں۔ احتجاج کریں یا عدالت کا رخ کریں۔ بہرحال ہمارے ہاں مسائل کا حل سیدھی انگلیوں سے نہیں ہوتا۔ یوں لگتا ہے کہ کمیشن کے ذمہ داران کو صرف اپنی تنخواہوں سے غرض ہے۔ انہیں ذرہ بھر خیال نہیں ہے کہ ان کی غلط پالیسیوں سے ہزاروں طلباء کا مستقبل تباہ ہو جاتا ہے۔ وہ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انہیں ان کی شبانہ روز محنت کا صلہ نہیں۔ طلباء اور ان کے ساتھ سوتیلی ماں سے کہیں زیادہ بدسلوکی ہوتی ہے۔ تقریباً تمام امتحانوں کا طریق کار یہ ہے کہ اے اور بی پیپر کے مارکس جمع کر کے نتیجہ تیار کرتے ہیں۔ میٹرک‘ ایف اے‘ بی اے ہر جگہ یہی طریق کار ہے اگر کسی طالب علم نے اے پیپر میں پچاس اور بیس میں 25 نمبر لئے ہیں تو دونوں کو جمع کر کے اسے پاس کردیا جاتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ اسے کہا جائے کہ بی پیپر کا امتحان دوبارہ دو کیونکہ تم بی پیپر میں فیل ہو گئے ہو۔ اب سی ایس ایس میں بھی انگریزی کے دو پیپر ہوتے ہیں ایک جنرل انگلش کا اور ایک ESSAY کا۔ اب اگر کسی طالب علم نے جنرل انگلش میں ستر نمبر لیے ہیں اور Essay میں 25 تو اسے 200 میں سے 105 نمبر دے کر پاس کردینا چاہیے کیونکہ دونوں پیپر انگریزی کے ہیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ اسے Essay میں فیل کر کے پورے امتحان میں فیل کردیا جاتا ہے۔ دونوں پیپرز کے نمبر جمع کر کے نتیجہ نکالا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ Essay کا پیپر 100 نمبر کا ہوتا ہے۔ اس بات کا بھی کوئی جواز نہیں۔ 100 نمبر کے Essay کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ سروسز میں جانے والے طلباء کے لیے انٹلکچوئل‘ دانشور‘ عظیم صحافی یا استاد ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس سے تقریباً تین ہزار الفاظ کا Essay لکھوانے کی کیا ضرورت ہے۔ کیا سروس میں جا کرانہوں نے لمبے لمبے مضمون لکھنے ہیں۔ غریب طالب علم Essay کی تیاری میں دن رات ایک کردیتے ہیں اور امتحان میں انہیں بے رحمی سے فیل کردیا جاتا ہے۔ ہر سال یہ ہوتا ہے کہ بہت لائق طلباء کو Essay میں فیل کردیا جاتا ہے جبکہ دوسرے پیپر میں ان کے نمبر ساٹھ ستر فیصد کے برابر ہوتے ہیں۔عملی زندگی میں افسروں کو فنکشنل انگلش کی ضرورت ہوتی ہے ۔ان کا سکالر ہونا قطعاً بھی ضروری نہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ سکالر اور دانشور قسم کے افسر انتظامی صلاحیتوں میں بہت کمزور ہوتے ہیں۔ انہیں تو کسی یونیورسٹی میں پروفیسر ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں Essay کا پیپر پچاس نمبر کا ہونا چاہیے۔ وقت دو گھنٹے اور دونوں پیپرز کے مارکس کو جمع کرلینا چاہیے۔ Essay کے پیپر میں پاس ہونے کے لیے 100 میں سے 40 نمبر چاہئیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ طلباء کو 38,37 بلکہ بعض اوقات 39 نمبر دے کر فیل کردیا جاتا ہے جو پروفیسر کسی طالب علم کو 100 میں سے 38 یا 39 نمبر دیتا ہے میرے خیال میں وہ پروفیسر نہیں ہے۔ اسے فوراً ڈس کوالیفائی کردینا چاہیے۔ غضب خدا کا اس حرکت کا مطلب کیا ہے۔ غریب طالب علم جس نے دن رات محنت کر کے Essay تیار کیا ہے اسے ایک دو نمبر سے فیل کردینے والے شخص کو نرم سے نرم الفاظ میں بھی کہیں تو پاگل بلکہ خطرناک پاگل کہنا چاہیے۔ نئی نسل کا بیڑہ غرق ایسے لوگ ہی کرتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ کمیشن نے اس زیادتی کا کبھی نوٹس نہیں لیا۔ اب آئیے مارکنگ کے معیار کی طرف۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ Essay کے پیپر کی مارکنگ صحیح نہیں ہوتی۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ بہت سے پیپرز کو پڑھے بغیر ہی فیل کردیا جاتا ہے۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ طالب علم پہلی بار امتحان دیتا ہے تو اس کے نمبر 30 کے لگ بھگ ہوتے ہیں اور اگلے سال جب وہ زیادہ تیاری سے امتحان دیتا ہے تو اس کے مارکس 15 کے قریب ہوتے ہیں ۔ کیا ایسی ظالمانہ روٹین کو بدلنا نہیں چاہیے؟ دراصل ہزاروں پپر ایک ہی ایگزامینر کو دے دیئے جاتے ہیں۔ اس کو بڑے چیک کا لالچ ہوتا ہے۔ کافی عرصہ تک تو وہ بنڈل کھولتا ہی نہیں۔ جب تھوڑا عرصہ رہ جاتا ہے تو ایک روز وہ اللہ کا نام لے کر بنڈل کھولتا ہے اور قتل عام شروع کردیتا ہے۔ مجھے یہ شک بھی ہوتا ہے بلکہ یقین ہوتا ہے کہ وہ اردگرد والوں سے بھی پیپر چیک کرواتا ہے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ میں نے کسی طالب علم کا Essay پڑھ کر اسے پچاس یا ساٹھ نمبر دیئے۔ طالب علم نے امتحان میں وہی Essay اسی طرح لکھا اور اسے نہایت بے دردی سے فیل کردیا گیا۔ بعض اوقات تو صرف 15 یا 20 نمبر دے کر اس کا مطلب یہ ہوا کہ یا تو میں نااہل اور نالائق ہوں یاپھر وہ ایگزامینر جو بڑے چیک کے لالچ میں معصوم طالب علموں کی زندگی تباہ کر رہا ہے۔ میری ساری زندگی گورنمنٹ کالج لاہور میں گزری ہے۔ میں اپنی تعریف کبھی نہیں کرتا۔ کچھ اتنا لائق بھی نہیں ہوں۔ گورنمنٹ کالج میں میرے اساتذہ عظیم لوگ تھے۔ میں تو ان کا ایک معمولی خوشہ چین ہوں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کمیشن کا چیک وصول کرنے والے پروفیسر مجھ سے بھی زیادہ نالائق ہیں۔ کئی بار میں نے ان لوگوں کے پیپرز میں زبان کی غلطیوں کی نشاندہی کی ہے۔ ورلڈ ٹائمز میگزین میں کئی بار لکھا ہے۔ یہ غلطیاں ٹائپ کی نہیں بلکہ ان لائق پروفیسروں کی ہوتی ہیں۔ یہ لوگ کیسی پرانی کتاب سے جو امریکہ یا انگلینڈ میں چھپی ہو سوالات نقل کردیتے ہیں۔ اگر کوئی سوال خود لکھنا پڑے تو اس میں غلطیاں ہوتی ہیں۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ جن فقرات کی تصحیح کے لیے کہا جاتا ہے ان میں ایک دو جملے ویسے ہی صحیح ہوتے ہیں لیکن ان حضرات کے نزدیک وہ غلط ہوتے ہیں۔ آپ پرانے پیپر لے آئیے۔ میں آپ کو کئی غلیاں لکھا دوں گا۔ انگریزی کے پیپر میں ایک سوال: Vocabulary کا ہوتا ہے۔ اس میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے مشکل‘ متروک اور خوفناک الفاظ ڈال دیئے جاتے ہیں جن کا جواب دینا انگریزوں کے لیے بھی مشکل ہوگا۔ کیا آپ آکسفورڈ یونیورسٹی کے لیے کسی انگریزی کے استاد کو بھرتی کر رہے ہیں یا پاکستان کے لیے جونیئر انتظامی افسروں کی؟ ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے۔