ملک کی سیاست میں بحران ،عدم استحکام اور بھونچال کی کیفیت ہے ۔وہیں کہیں نہ کہیں قرار و امن تہہ و بالا کردیا جاتا ہے ۔سندھ ،خیبر پختو نخوا اور بلوچستان میں سنگین و روح فرسا واقعار رونما ہو رہے ہیں۔پچھلے دنوں (15اکتوبر2020ء ) بلوچستان کے ساحلی علاقے اورماڑہ میں بلوچ عسکریت پسندوں کے حملے میں سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت 15افراد شہید ہوئے ۔اسی روز شمالی وزیرستان میں رزمک کے مقام پر شرپسندوں کی جانب سے آئی ای ڈی حملے میں کیپٹن عمر فاروق، نائب صوبیدار ریاض احمد، نائب صوبیدار شکیل آزاد اور لائنس نائیک عصمت اللہ کو شہید کر دیا گیا۔ ریاست عسکریت پسندوں کی عملیات کا سالوں سے سامناکئے ہوئے ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضہ اور افغانستان پرحملے میں امریکہ اور نیٹو کا اتحادی بننے کے بعد مسلح تنظیمیں منظر عام پر آئیں۔ ساتھ قبائلی علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان کے اثرات پھیلتے گئے ،حتیٰ کہ معاملات حکومت کے کنٹرول سے نکلتے گئے۔ یہاں تک کہ سوات بھی شدت پسندوں نے اپنے قبضہ میں لے لیا۔ بلوچ عسکریت پسندوں کے لیے افغانستان پناہ گاہ و تربیت گاہ ٹھہرا۔ افغانستان میں بھارت کو نفوذ و رسوخ حاصل ہوا۔ پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ کا حصہ ہونے کے باوجود بھی افغانستان سے بے دخل کردیا گیا۔۔ چناں چہ پاکستان کو مکافات عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ اب اگر افغانستان میں امن نہیں تو پاکستان بھی پرسکون نہیں۔ تحریک طالبان پاکستان اور دوسرے مسلح گروہوں نے آپریشن کے بعد افغانستان کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنایا لیا۔ جن کو بھارت کی انٹیلی جنس اور افغان این ڈی ایس کی پوری پشت پناہی حاصل ہے۔ اگست2020ء کے وسط میں افغانستان کے اندر تحریک طالبان پاکستان، جماعت الاحرار اور حزب الاحرار کے درمیان انضمام ہوا۔ آخر الذکر گروہوں کے کمانڈروں عمر خالد خراسانی اور عمر خراسانی اور ان کے دوسرے نمائندوں نے تحرک طالبان پاکستان کے سربراہ ابو عاصم منصور کے ہاتھوں بعیت کرلیااور پاکستان مخالف عزم کا اظہار کیا گیا۔ متوازی طور پر دولت اسلامیہ پاکستان کے نام سے افغانستان میں موجود گروہ نے بھی پاکستان مخالف عزائم پر مبنی اعلامیہ جاری کیا۔ پچھلے مہینوں بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) اور سندھو دیش روولیشنری آرمی ( ایس آر اے ) نے مشترکہ محاذ کے قیام کا اعلان کیا۔ براس بلوچ لبریشن آرمی ( بی ایل اے)، بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)، بلوچ ریپبلکن آرمی ( بی آر اے) اوربلوچ ریپبکن گارڈز ( بی آر جی) پر مشتمل ہے۔ مذکورہ بالا اور ماڑہ حملے کی ذمہ داری اس تنظیم نے قبول کر لی۔ درحقیقت بلوچ عسکریت پسندوں پر کلی قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ نہ ہی سیاسی میدان میں ہم آہنگی اور افہام و تفہیم کا ماحول پیدا کیا جاسکا ہے۔ سیاسی نقد و جرح ضرور ہوئی، لیکن جامع اور موثر حکمت عملی کا فقدان رہا۔ خصوصاً پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حالیہ تحریک کے تناظر میں حکومتی لوگوں کا بیانیہ صائب نہیں ۔تخریب و دہشتگردی کے واقعات کا پاکستان کو برسوں سے سامنا ہے ۔ جس میںیقینا ملک کو بھاری نقصان اُٹھاچکا ہے ۔ عوام اور فورسز کی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔ لہٰذ اگر سیاسی معاملات میں حکومت پر تنقید ہوتی ہے تو اس کا ہر گز مطلب ملک دشمن عناصر کی مدد کرنا نہیں ہو سکتا۔البتہ حکومت مخالف اتحاد میں شامل سرکردہ رہنما اپنے ارشادات میں محتاط رہیں کہ ریاست کے مفادات کا سوال نہ اُبھرے ۔ مشترکات موضوع ہوتو پی ڈی ایم متنازعہ ہوگی نہ اتحاد وقتی ثابت ہو گا ۔چوں کہ ملک کو دہشت گردی کاسامنا ہے ۔اس لیے یہ اتحاد کالعدم گروہوں سے متعلق خواہ وہ بلوچستان کی ہوں سندھ کی یا سابقہ فاٹا سے کے بارے واضح موقف پیش کریں ۔ الغر ض اورماڑہ کا واقعہ غیر معمولی ہے جس میں تیل اور گیس کی تلاش کرنے والی سرکاری کمپنی او جی ڈی سی ایل کے کانوائے کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ کانوائے گوادر سے او جی ڈی سی ایل کے ملازمین کو ایف سی اور کمپنی کے اپنے نجی سیکورٹی گارڈز کی حفاظت میں کراچی لے جارہا تھا۔ جسے گوادر کے علاقے اورماڑہ سے پچاس کلومیٹر دور مکران کوسٹل ہائی وے پر’’ سربٹ ‘‘کے مقام پر عسکریت پسندوں نے گھیر لیا ، خود کار اسلحہ سے اندھا دھند فائرنگ کی، راکٹ کے گولے بھی داغے۔ او جی ڈی سی ایل کے ملازمین کی گاڑی تو بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔ مگر ان کی حفاظت پر مامور اہلکار گولیوں کا نشانہ بنے ۔ ایک گاڑی کی فیول ٹینک پھٹنے سے آگ لگ گئی ،جس میں سوار اہلکار جھلس گئے۔ ایف سی کے حوالدار سمیت سات اہلکار اور اتنی ہی تعداد میں او جی ڈی سی ایل کے نجی محافظ بھی شہید ہوگئے۔ حملے کے بعد قریبی علاقوں اور پہاڑوں میں آپریشن غالباً تین دن تک جاری رہا ۔تاہم آپریشن کس قدر نتیجہ خیز تھا کی تفصیلات اب تک معلوم نہیں ہو سکی ہیں۔ حملہ آور مشکل پہاڑی سلسلوں میں کئی کلومیٹر پید ل سفر کرکے ہدف کے لیے آتے ہیںاس بنا ان کا تعاقب مشکل ہوتا ہے۔ اسی مقام پر اپریل 2019ء میں بھی عسکریت پسندوں کے اسی اتحاد’ ’براس‘ ‘نے رات کے اندھیرے میںمکران کوسٹل ہائی وے پر مسافربسوں کو روکا تھا۔ شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد پنجاب اور دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے 14غیر بلوچستانیوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ ان میں 11پاک بحریہ کے کوسٹ گارڈز کے اہلکار تھے۔ پاکستان نے اس واقعہ پر باقاعدہ ہمسایہ ملک ایران کی حکومت سے احتجاج کیا تھا ،کہ تیس سے چالیس کی تعداد میں یہ حملہ آور ایران کی حدود سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے اور حملہ کرکے واپس وہیں چلے گئے۔ یہ بھی کہ ان تنظیموں کے کارندوں نے پاکستانی سرحد کے قریب ایرانی حدود میں پناہ لے رکھی ہے۔ یقینا اس نوع کے واقعات کا آئندہ بھی قوی اندیشہ ہے ۔ لہذا بلوچستان کے تناظر میں سکیورٹی اقدامات کو مزید موثر بنا نے کی ضرورت ہے ۔