خیال تھا کہ اگر پارلیمان بالادست ہوجائے، عدلیہ آزاد اور صوبے خود مختار ہوں تو ملکی سیاست استحکام کی طرف گامزن ہوجائیگی۔ ملکی استحکام ہوگا تو معیشت بھی اپنے پاوں پر کھڑی ہوجائیگی۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انیس سو نوے کی دہائی کی حریف جماعتوں ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے میثاق جمہوریت کرایا گیا اور انہیں این آر او بھی ملا۔ دس سال معاملات ٹھیک چلے کہ پارٹیوں نے بار ی باری حکومت کی۔ اس سیاسی بھائی چارے کا فائدہ تو کیا ہونا تھا احتساب کے دانت کھٹے کردیے گئے اور مقامی حکومتیں اپاہج بنادی گئیں۔ جن طاقتوں نے شیر اور بکری کو ایک ہی گھاٹ سے پانی پلانے کا انتظام کیا تھا انہیں یقینی طور پر مایوسی ہوئی کہ مقاصد اور تھے اور نتیجہ کچھ اور نکلا۔ جمہوریت کا تو جو حشر ہوا سو ہوا ، معیشت بھی ڈوب گئی۔ عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے دئیے گئے قرضے بوجھ بن گئے۔ واپس ہوں تو کیسے کہ اشرافیہ نہ تو اپنی مراعات واپس کرنے پر تیا ر تھی اور نہ ہی محصولات میں اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالنے میں۔ عام آدمی پر کتنا بوجھ ڈالا جاسکتا تھا؟ قومی آمدنی اور محصولات کی شرح دس فیصد سے اوپر نہ جاسکی۔ معیشت میں بیرونی قرضے اتارنے کی اپنے طور پر سکت نہیں تھی اور سرمایہ کاری کہیں سے کیا ملک کے اندر سے بھی نہیں ہورہی تھی۔ ڈھانچہ جاتی اصلاحات لازمی تھیں لیکن ان کے لیے مزید قرضہ کی ضرورت تھی۔ معاملات کو سدھارنے کے لیے ایک تیسری پارٹی میدان میں لائی گئی جس نے نہ صرف بیرونی قرضوں کی واپسی کا راستہ نکالنا تھا بلکہ نظام حکومت کی تیسری کڑی (مقامی حکومتوں ) کو بھی فعال کرنا تھا تاکہ عالمی ترقیاتی اہداف کی حصول کی طرف پیش قدمی ہوسکے۔ کچھ تو کورونا وائرس کا جھٹکا اور کچھ پارلیمان میں اس کی بے مائیگی، دعوے اور وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ گندم کے ذخائر بیچ کر آئی ایم ایف سے قرضے کا حصول ممکن بنایا تو اس کے نتیجے میں آنیوالا مہنگائی کا طوفان سنبھالتے سنبھالتے حکمران پارٹی پارلیمان سے ہی باہرہوگئی۔ مارشل لا لگ نہیں سکتا تھا تو گیند تیرہ جماعتی حکومت مخالف اتحاد کی کورٹ میں چلی گئی۔ یہ اور بات کہ تحریک انصاف کا حکومت سے نکلنے کا فیصلہ سیاسی طور ٹھیک تھا یا غلط، لیکن حقیقت یہی ہے کہ اشرافیہ پورے طمطراق سے واپس آئی ہے اور معاملات کو اسی نہج پر لے جانے کی کوشش کر رہی ہے جہاں اس نے چھوڑے تھے۔ تحریک انصاف اپنے تین سالہ اقتدار سے حاصل ہونے والے تجربے کی بنیاد پر کہہ رہی ہے کہ ملک میں نئے سرے سے انتخابات ہوں تا کہ یہ اپنی پوری طاقت سے دوبارہ پارلیمان میں آسکے اور اپنے ایجنڈے پر عمل کرسکے۔ اسے یقین ہے کہ اشرافیہ اپنے مفادات پر کسی طور پر سمجھوتا کرنے کو راضی نہیں۔ انتخابات میں اسکی فیصلہ کن شکست ہی ملکی حالات کو سدھار سکتی ہے۔ اس میں شک کی گنجائش نہیں کہ اشرافیہ کی حکومت سے ملک کے معاشی حالات خراب ہی ہونگے ۔ قانون کی عملداری اور کرپشن کی روک تھام کرنا اس کے بس میں ہی نہیں کہ ایک اونچ نیچ کے شکار معاشرے میں مساوات کا تصور لاگو کرنے میں اس کی اپنی موت ہے۔ دوسری طرف ان دو عوامل کو نظر انداز کرنے کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ بیرونی سرمایہ کی ترسیل تو نہیں ہوگی الٹا رشوت اور بدعنوانی کے نتیجے میں حاصل ہونے والی دولت باہر کی طرف منتقل ہوگی۔ خود مختار مقامی حکومتیں اور انکے نتیجے میں ترقیاتی فنڈز کی تمام خطوں اور علاقوں میں منصفانہ تقسیم بھی اشرافیہ کے مفادات کے خلاف ہے۔ جہاں تک مہنگائی روکنے کا سوال ہے تو اس حوالے سے اس نے پہلے ہی ہاتھ کھڑے کردیے ہیں۔ خیال تھا کہ اسحاق ڈار جادو کی چھڑی گھما کر ڈالر کی قیمت کو نیچے لے آئیں گے۔ کچھ ابتدائی کامیابیوں کے بعد یہ معاملہ بھی اب اٹک گیا ہے۔ ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ملک گندم، دالیں اورکوکنگ آئل باہر سے منگو ا رہا ہے جس پر زرمبادلہ کا بڑا حصہ اٹھ جاتا ہے۔ تیل اور گیس کی قیمتوں پر حکومت کا کوئی اختیار نہیں۔ یہی معاملہ بجلی کے بلوں کا ہے۔ مہنگی توانائی کی وجہ سے کاروبار مندا ہے اور ذرائع روزگار محدود۔ مہنگائی کیسے کم ہوگی؟ اوپر سے کثیر جماعتی حکومت ہونے کی وجہ سے سرکاری اخراجات میں بچت بھی ممکن نہیں۔ دنیا کی ایک بڑی معیشت، بھارت کے ساتھ تعلقات خراب ہیں تو دوسری طرف افغانستان اور ایران ہیں جو امریکی پابندیوں کے نرغے میں ہیں۔ چین ایک بڑی معیشت ہے لیکن اسے جو چاہیے، اناج، اس میں ہم خود کفیل تک نہیں۔ معاملہ وہیں پر اٹکا ہے جب میثا ق جمہوریت ہوا تھا۔ تحریک انصاف کے میدان میں ہونے اور ڈٹے رہنے سے ایک دفعہ پھر اسی طرح کے معاہدے کی ضرورت ہے۔ اگر جمہوریت کے ذریعے پائدار معیشت کا راستہ نکالنا ہے تو اشرافیائی جمہوریت سے حقیقی جمہوریت کا سفر کرنا لازم ہے۔ پورے نظام کی تشکیل نو کی ضرورت پڑیگی۔ مطلب استعماری دور کی بہت سے بدعتوں اور روایات کو ترک کرنا پڑے گا۔ بنیادی حقوق کے اطلاق کے لیے قابل عمل قانونی اور انتظامی ڈھانچہ تشکیل دینا ہوگا جس کے لیے آئین میں اصلاح کرنا پڑے گی۔ برطانوی عہد سے لاگو سزا و جزا کے نظام کو عہدِحاضر کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا اور اختیارات و وسائل کی نچلی سطح تک منتقلی سے جمہوریت کی ملک کو پائیدار ترقی کی راہ پر ڈالنے کی استعداد بڑھا دیگی۔ جہاں تک معاشی جمود کو توڑنے کا معاملہ ہے تو اسکے لیے پارلیمان کی بالا دستی نہ صرف ٹیکس اور ڈھانچہ جاتی اصلاحات کو ممکن بنا سکتی ہے بلکہ علاقائی تجارت کے راستے بھی کھول سکتی ہے۔