زرداری صاحب کی حکومت تھی‘ جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا‘ ڈاکٹر صاحب کا پیغام ملا ، ان سے ملنے اسلام آباد پہنچے ،تو ان کی رہائش گاہ کو گھیرے‘ سکیورٹی اور انٹیلی جنس کے اہلکاروں کے خشک اور ڈرائونے طرز عمل سے گزر کر بروقت ان سے ملنے کی اجازت ہوئی۔ حاجی اسلم اور بڑے بھائی خالد ہمراہ تھے‘ گھر میں ان کے ملازم کے علاوہ ایک لنگڑا بندر نظر آیا، جو سوئمنگ پول میں تن تنہا تیراکی کی مشق کر رہا تھا۔ اس معذوری کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے شاید اسے گود لے رکھا تھا، درجنوں بندر مارگلہ کی پہاڑی سے اتر کر ڈاکٹر صاحب کی فیاضانہ مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے‘ ان کے لان میں ٹہلتے اور پول میں تیراکی کا لطف اٹھاتے مگر اس دن یہ لے پاک تنہا سارے منظر نامے کا مالک تھا۔ ادھر ادھر کی باتوں گرما گرم پکوڑوں سموسوں اور کافی کے بعد نئی سیاسی پارٹی کے امکانات پر بات شروع ہوئی تو عرض کیا‘ جونیجو حکومت کی برطرفی ضیاء الحق کی شہادت اور بے نظیر کی حکومت کے بعد، ضیاء الحق کی بنائی ہوئی مسلم لیگ حصوں میں بٹ کر غیر موثر ہو چکی تھی‘ جنرل حمید گل کو آئی ایس آئی کی سربراہی سے ہٹا کر کور کمانڈر ملتان بنا دیا گیا تھا‘بے نظیر کے کشمیر بارے طرز عمل پہ راجیو کی میزبانی اور کرپشن کے بے تحاشا سکینڈلز نے دائیں بازو کے خصوصاً پنجاب‘ پختونخواہ کو عموماً بڑے اضطراب میں ڈال رکھا تھا‘ تب ملتان جا کر جنرل صاحب سے عرض گزاری کہ آپ فوج سے ریٹائر ہو کر سیاست میں اچانک پیدا ہونے والے اس خلاء کو پر کر سکتے ہیں کہ آپ کی نیک نامی سیاسی حلقوں میں پذیرائی اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں میں رسائی نہ صرف پیدا خلاء کو پر کرے گی بلکہ جلد ہی اقتدار کی راہ کھول دے گی‘ گل صاحب نے کہا ! فوج میرا کیریئر ہی نہیں محبت بھی ہے‘ اسلم بیگ کے بعد شاید میں فوج کا سربراہ بن سکوں اس لئے میری فوج سے دستبرداری مناسب نہیں ہو گی‘ دن گزرے‘اسلم بیگ کے بعد آصف نواز فوج کے سربراہ بنے‘ تب تک نواز شریف بے نظیر کی برطرفی کے بعد وزیر اعظم بن چکے تھے‘ بھٹو مخالف سیاسی قوتیں اس کے گرد جمع تھیں‘ آصف نواز نے اچانک بغیر کوئی وجہ بتائے حمید گل صاحب کو ملتان کور سے ہٹا کر‘ واہ آرڈیننس فیکٹری کا سربراہ مقرر کر دیا‘انہیں اس پوسٹنگ اور جنرل آصف نواز کے طرز عمل نے مشتعل کر دیا‘ اتفاق سے راقم ملتان میں تھا‘ بریگیڈیئر صالح نے فون کیا اور فوراً ہی ملنے چلے آئے‘ انہوں نے جنرل حمید گل صاحب سے فوری ملاقات کے لئے ان کے گھر چلنے کو کہا‘ وہاں پہنچے تو انہوں نے اپنے ساتھ بیتی کا ذکر کر کے مستعفی ہونے کے فیصلے سے آگاہ کیا تو ان سے عرض گزاری کہ آپ استعفیٰ نہ دیں ، مجھے صدر پاکستان سے بات کرنے کا موقع فراہم کریں‘ چنانچہ شام کو پی آئی کی فلائٹ سے اسلام آباد پہنچ کر صدر پاکستان غلام اسحق خان سے ملاقات کی‘صدر صاحب نے کہا میری جنرل شیر علی سے بھی اس بارے بات ہوئی ہے او آپ بھی انہیں استعفیٰ دینے سے منع کریں اور انہیں کہیں کہ کل کس نے نہیں دیکھی‘ وردی میں ہونے اور وردی سے باہر بڑا فرق ہے‘ وہ صبر سے وقت کا انتظار کریں‘ واپس ملتان جا کر ان سے اصرار کیا تو وہ بولے‘ کیا آپ نے مجھے فوج چھوڑ کر سیاست میں آنے کے لئے نہیں کہا تھا‘ آج اسی زبان سے مجھے منع کرتے ہو۔ عرض کیا!تب بے نظیر حکمران تھی کوئی متبادل قیادت نظر نہیں آ رہی تھی‘ اس خلاء کو آپ سے بہتر کوئی نہ تھا جو پر کر سکے‘ آج نواز شریف حکمران ہے‘ تمام مذہبی جماعتیں‘ دائیں بازو کے سیاستدان اور قوم پرست سب نوازشریف کے گرد جمع ہیں تو وہ خلاء باقی نہیں رہا‘اس لئے آپ اپنا مورچہ سنبھال رکھیں‘ لیکن ہونی ہو کے رہی اور چند ہفتوں کے بعد جنرل حمید گل نے فوج سے علیحدگی اختیار کر لی۔اس داستان گوئی کے بعد ڈاکٹر خان سے عرض کی کہ پیپلز پارٹی کا ووٹر اسے چھوڑ کر تیزی سے تحریک انصاف میں جا رہا ہے‘ نوجوان اس کی طرف متوجہ بلکہ جانثار ہیں‘ مسلم لیگ(ق) کے مایوس لیڈر سب عمران خان کی چھتری تلے جمع ہو رہے ہیں‘ نواز شریف بھی میدان میں پوری قوت سے سرگرم ہے‘چنانچہ سیاسی خلا فی الوقت موجود نہیں رہا‘آئندہ یہ خلا تب پیدا ہو گا جب عمران خان اقتدار میں آئے گا تو پیپلز پارٹی کے خاتمے کے بعد نواز شریف کو بھی بھنبھوڑ کے رکھ دے گا‘ تب قومی سیاست میں زبردست خلاء پیدا ہو گا مگر یہ واقعہ سات آٹھ برس بعد کی بات ہے آپ کی عمر اور صحت تب تک نئی پارٹی کو متحرک کرنے کی اجازت نہیں دے گی‘ چنانچہ ڈاکٹر خان نے چند ہفتوں کے بعد پارٹی تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا‘حسب توقع پیپلز پارٹی آخری ہچکی لے رہی ہے۔ نواز شریف خاندان کی واپسی ’’ایں خیال است محال است و جنوں‘‘ عمران خان کے وابستگان ابھی اس کے ساتھ پیوست ہیں‘ پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ کے کارکن اپنی طبعی عمر گزار کر روز بروز کم پڑتے جا رہے ہیں۔ جو بچ رہے وہ مایوس ہوں گے‘ ہر سال تقریباً چالیس سے پچاس لاکھ نیا ووٹر لسٹ میں شامل ہو رہا ہے۔ اس کی امیدیں فی الوقت عمران خان کے علاوہ کسی اور سے نہیں جڑی ہیں۔ ہماری سیاست کا چلن بلکہ دنیا بھر میں جمہوری سیاست کا چلن تبدیل نہیں ہوتا‘ جب تک کسی کے اندرونی و بیرونی مدد سے ووٹ کے ساتھ نامعلوم سہاروں کی امید نہ دلا سکے ‘عمران خان کا کوئی ایک حریف بھی میدان میں نہیں‘ عمران خان ہر حلقے میں ہر ایک کا حریف ہے جبکہ پیپلز پارٹی آئندہ اندرون سندھ چند حلقوں میں مقابلہ کر سکے گی‘ سندھ کے شہری حلقے عمران خان فتح کر چکا جو بچ رہے وہ آئندہ انتخابات میں مفتوح ہوں گے۔ ایم کیو ایم قدر کھو کر تقسیم ہو گئی‘ مذہبی جماعتوں کی سیاست پرویز مشرف کے ساتھ گئی‘ پختونخواہ کے دو ایک ضلع میں اے این پی مقابلہ کرے گی‘ بنوں‘ ڈیرہ اسماعیل خان میں فضل الرحمان اور شاذو نادر جماعت اسلامی ایک آدھ جگہ مسلم لیگ ن کی باقیات‘ بلوچستان دوبڑے حصوں میں تقسیم ہے‘ پہلی تقسیم بلوچ پختون کی ہے اور اس کے بعد ضمنی تقسیم‘سردار‘ مذہب اثرورسوخ ‘ قوم پرست اور سب کا ایک حریف وہ ہے عمران خان‘مسلم لیگ نواز کا دائرہ جی ٹی روڈ تک ہے۔ باقی تین صوبوں میں اس کے پاس کچھ نہیں۔عمران خان کو اپنے حریفوں پر کئی رخ سے برتری حاصل ہے ۔مذہبی جماعتیں مثلاً جماعت اسلامی اس کی انتخابی سیاست’’ہر چند کہیں ہے نہیں ہے‘‘البتہ اس کا سوشل ویلفیئر پروگرام روز افزسوں ہے‘ فضل الرحمان کے پاس چند سیٹیں ہیں‘ وہ بھی خطرے سے دوچار۔ قوم پرست اور ان کا حلقہ اثر بھی قومی دھارے میں آ چکا‘ فی الحال عمران خان کا کوئی متبادل پیدا نہیں مگر کوئی ’’ناگہانی‘‘ پیش گوئی کی نہیں جا سکتی‘ عمران خان کا متبادل ’’خود تحریک انصاف بھی نہیں۔‘‘ خدانخواستہ عمران خان منظر سے ہٹ جائے تو فوج کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ۔دوسرا طریقہ برسر اقتدار کے خلاف ملک بھر کی سیاسی جماعتیں ایک جگہ اکٹھی ہو جائیں‘جس طرح ایوب خان کے خلاف مشرقی اور مغربی پاکستان کے لیڈر سب اکٹھے ہوئے‘ فاطمہ جناح نے طلسم توڑا‘ نوابزادہ نصراللہ‘چودھری محمد علی‘ سید مودودی‘ ولی خان‘ نور الامین‘ مولوی فرید‘اصغر خان کیا کیا قد آور قائدین تھے‘ بھٹو کے خلاف پی این اے بنی‘ سید مودودی ‘ اصغرعلی خان‘ ولی خان‘مفتی محمود‘ شیر باز اور ساری کی ساری مذہبی قوتیں‘عمران خان کی خوش قسمتی کہ اب اتحاد کا ڈول ڈالنے قائدین اپنی طبعی عمر گزار کے رخصت ہوئے‘ تو کیا اب عشروں تک صرف عمران خان ہی وزیر اعظم ہو گا؟متبادل مورچہ کوئی نہیں؟؟ہاں ہے مگر کون؟؟