شعور بہت کم‘ علم بہت محدود اور دعوے بے شمار۔ یہ ادراک ہی نہیں کہ اصول اہم ہوتے ہیں‘ آدمی نہیں۔ عظمت انہیں نصیب ہوتی ہے‘ جو اس راز سے آشنا ہیں۔ باقی سب زمانے کا رزق ہو جاتے ہیں۔ سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی تخت و کلاہ و قصر کے سب سلسلے گئے سرکار ؐکے جلو میں نئے زمانے طلوع ہو رہے تھے۔ خود ارشاد کیا تھا: جاہلیت کے سب ادوار میرے قدموں تلے پامال ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوا کہ محمدؐ دوسرے پیغمبروں کی طرح‘ اللہ کے پیغام بردار ہیں۔ اگر وہ دنیا سے تشریف لے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں پہ پھر جاؤ گے؟ عمر ابن خطابؓ نے اپنی شمشیر بے نیام کی اور یہ کہا: اگر کوئی یہ کہے گا کہ عالی مرتبت ؐچلے گئے تو وہ اس کا سر قلم کر دیں گے۔ تب وہ آدمی مجمع کے مقابل اٹھا‘ عہدِ آئندہ کی بنیادیں جسے استوار کرنا تھیں۔ پھر قرآن کریم کی وہ آیات تلاوت کیں‘ جن کا مفہوم یہ ہے کہ دوام فقط خالقِ کون و مکاں کو ہے۔ روتے روتے فاروق اعظم ؓزمین پر بیٹھ گئے۔ حادثے کا یقین آ گیا‘ جیسا صدمہ بنی آدم پہ کبھی نہ گزرا تھا۔ بعد میں انہوں نے بتایا: مجھے ایسا لگا کہ یہ آیات ابھی ابھی نازل ہوئی ہیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓزیادہ جانتے تھے۔ وہ دو میں سے دوسرے تھے۔خطبہ حج الوداع میں سرکارؓ کے ارشادات پر سبھی نے غور کیا ہو گا مگر اس کے لہجے پر خلیفہ الرّسول کی نظر سب سے زیادہ تھی۔ یہ ایک الوداعی خطاب تھا۔ عالی جناب نے فرمایا تھا کہ آج کے بعد شاید وہ سب لوگ یکجا نہ ہو سکیں۔ فوراً بعد قرآنِ کریم کی وہ آیات نازل ہوئیں الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم السلام دینا ''آج تمہارا دین‘ تمہارے لیے مکمل کر دیا گیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی‘ تمہارے لیے شیوہ تسلیم و رضا اور اسلام کو پسند فرمایا‘‘... ابوبکر ؓاس پر رو دیئے۔ ذہنی طور پر وہ اس کے لیے تیار ہو گئے کہ اب سرکارؐ عالمِ فانی سے تشریف لے جاتے ہیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓکو پیغمبران عظام کے بعد انسانی تاریخ کا سب سے بڑا آدمی کیوں کہا گیا۔ تقویٰ کے طفیل؟ جس کی تعریف جناب عمرؓ نے یوں کی تھی: جھاڑیوں کے درمیان اپنے ملبوس کو محفوظ رکھتے ہوئے آگے بڑھنا۔ ہاں پرہیز گاری کی بنا پر‘ مگر خود پرہیزگاری کی بنیاد کیا ہے؟ زندگی کی کوئی حقیقت ایسی نہیں جو اللہ کی آخری کتاب نے آشکار نہ کر دی ہو۔ درجات علم کے ساتھ ہیں۔ آدمی کو فرشتوں پر اسی لیے فضیلت ہے کہ غور و فکر سے نئے جہان اس پر آشکار ہوتے رہتے ہیں‘ حیات کی نئی جہت! دم آفرینش آدم علیہ السلام نے رٹا ہوا سبق نہ دہرایا تھا بلکہ سوچ بچار سے اخذ کردہ نتائج۔ وہی سوال فرشتوں سے پوچھے گئے تو اللہ کے سامنے وہ جھکے اور یہ کہا: تو پاک ہے‘ ہم اس کے سوا کچھ نہیں جانتے‘ جو ہمیں سکھایا گیا۔ ابوبکر صدیقؓ اخلاق میں بلند ترین تھے‘ ایسے بلند کہ ایک موقع پر جب وہ مشرکین مکہ کے مظالم پر آزردہ ہو کر‘ شہر سے باہر نکلے تو ایک عرب سردار نے انہیں روکا۔ پھر کم و بیش وہی الفاظ کہے‘ نزول وحی کے وقت‘ جو سیدہ خدیجہ الکبریٰ ؓکی زبان سے پھوٹ نکلے تھے‘ مفہوم یہ تھا: آپؐ مظلوموں کے مددگار‘ محتاجوں کے دستگیر‘ رشتہ داروں سے صلہِ رحمی کرنے والے اور مسافروں کے نگہبان ہیں۔ کردار میں ایسی صلابت علم اور ادراک سے پھوٹتی ہے۔ ایک اصول جب واضح ہو جائے تو اس کی پابندی کی جاتی ہے‘ حتیٰ کہ اول وہ عادت اور پھر فطرت ثانیہ بن جائے۔ تب قرآنِ کریم کے بقول وہ کردار تشکیل پاتا ہے: مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ وہ بندے کے ہاتھ پاؤں بن جاتا ہے‘ اس کی زبان ہو جاتا ہے۔ سرکار کے فرامین میں سے ایک یہ ہے: ہر زمانے میں چالیس ایسے لوگ موجود رہیں گے کہ اگر ان میں سے کوئی قسم کھا لے تو پوری کر دی جائے گی۔ صوفیاء کرام الگ‘ حرف و بیاں کے قبیلے میں فقط اقبال ؔتھے جو اس رمز کو پا سکے۔ ہاتھ ہے اللہ کا‘ بندہ ء مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں‘ کار کشا‘ کار ساز خاکی و نوری نہاد‘ بندہ ء مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دلِ بے نیاز اس کی امیدیں قلیل‘ اس کے مقاصد جلیل اس کی ادا دلفریب‘ اس کی نگہ دلنواز مشرق کے عظیم شاعر اور فلسفی کے ہاں یہ مضمون تکرار کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے اور ہر بار اسی شوکت و جمال کے ساتھ ہو اگر خودنگر و خودگر و خودگیر خودی یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے اسلام آباد میں یہ سرما کی ایک شب تھی۔ بارہ بجے ہوں گے جب صدر آصف علی زرداری نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو فون کیا۔ اڑھائی گھنٹے تک وہ ان سے بات کرتے رہے۔ یہ وہی دن تھے‘ جب مولانا فضل الرحمن جناب سے ملنے گئے۔ چار پانچ گھنٹے تک انہوں نے مولوی صاحب کو پاس بٹھائے رکھا۔ تنہائی سے خوف زدہ‘ اپنے انجام سے خوف زدہ۔ وہی ایّام تھے‘ جب ایک پسندیدہ اخبار نویس کو انہوں نے بلایا۔ اسلحہ کا انبار دکھایا اور کہا کہ اگر ان پر حملہ ہوا تو وہ جان دے دیں گے۔ انہی دنوں صدر اوباما کو انہوں نے فون کیا اور نیویارک ٹائمز نے خبر چھاپی کہ گفتگو ربط سے خالی تھی ع کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی جناب صدر کا عالم یہ تھا کہ کبھی کسی گارڈ سے گفتگو کرنے لگتے تو دیر تک جاری رکھتے۔ شب دو بجے ایوانِ صدر کے ملازمین کو جمع کر لیتے اور خطاب فرماتے۔ کھانے کا حال ابتر تھا۔ گاہے انکار ہی کر دیتے۔ پھر ان کی پیاری بہن تشریف لاتیں اور ا پنے ہاتھوں سے کھلاتیں۔ اس انکشاف نے عسکری قیادت کو خوف زدہ کر دیا کہ وہ ''بائی پولر‘‘ کے مریض ہیں۔ ایسا مریض کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتا ہے۔ فکر مندی میں کبھی شکر بڑھ جاتی‘ کبھی دل ڈوبنے لگتا۔ حالت بگڑی تو ایک دن وہ دبئی لے جائے گئے۔ صحت ایسی بھی خراب نہ تھی مگر اندیشہ پالتے۔ دل و دماغ پہ توہمات کی حکمرانی تھی۔ کچھ عرصہ قبل کچھ اخبار نویسوں کو یاد کیا تھا۔ یہ ناچیز بھی ان میں شامل تھا۔ میں نے دیکھا کہ شفقت محمود تک کو ''تو‘‘ سے مخاطب کیا۔ احتراماً وہ خاموش رہے۔ محمد مالک کے ساتھ اس سے بھی زیادہ بے تکلفی کا مظاہرہ کیا ''بار بار تم سوال کیوں پوچھتے ہو‘‘۔ جھینپ کر وہ خاموش ہو گیا۔ پھر ظفر عباس سے مخاطب ہوئے۔ ''آپ ملتے کیوں نہیں‘‘۔ نہایت وقار سے اس نے جواب دیا ''آپ یاد کریں تو ملاقات ہو‘‘۔ اجلاس تمام ہونے کو تھا کہ اچانک اس خاکسار سے مخاطب ہوئے ''ٹی وی پر تو آپ بہت شور مچاتے ہیں۔ اب کیوں خاموش ہیں؟‘‘ اسی لہجے میں عرض کیا ''میری مرضی‘‘۔ کسی قوم سے قدرت ناخوش ہو تو ایسے حکمران اس پر مسلط کیے جاتے ہیں۔ہزاروں بے گناہ پاکستانیوں کے قاتل حمد اللہ محب سے میاں محمد نواز شریف نے جب ملاقات کی تو کیا نتائج کا انہیں ادراک تھا؟ عثمان بزدار ایسے شخص کو عمران خاں جب دوسرا اہم ترین منصب سونپتے اور پیہم ستائش کرتے ہیں تو اس کا مطلب کیا ہے؟ شعور بہت کم‘ علم بہت محدود اور دعوے بے شمار۔ یہ ادراک ہی نہیں کہ اصول اہم ہوتے ہیں‘ آدمی نہیں۔ عظمت انہیں نصیب ہوتی ہے‘ جو اس راز سے آشنا ہیں۔ باقی سب زمانے کا رزق ہو جاتے ہیں۔ سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی تخت و کلاہ و قصر کے سب سلسلے گئے