وہ پچھلے پانچ سالوں سے دہلی کی تہاڑ جیل میں نظر بند ہیں اور اس سے پہلے بھی کئی بار جیلوں کی زیارت کر چکے ہیں۔ ان کے بڑے داماد ، غلام رسول، جن کا اب انتقال ہوچکا ہے ،کے چاچا جماعت اسلامی کے رکن تھے، جن کو سرکاری بندوق برداروں نے دن دہاڑے ہلاک کردیا۔ سرکاری بندوق برداروں اور پھر آئے دن کے چھاپوں اور تلاشیوں سے ان کی پوری فیملی کو دردبد ر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ خیر جب میں 90کے اوائل میں دہلی وارد ہوا، تو دیگر کشمیری طالب علموں کے ساتھ مل کر ہم نے ایسا ماحول بنایا تھا کہ نظریاتی اور لیڈرشپ کے اختلافات سے بالاتر سبھی لیڈروں کی میزبانی کرکے ان کو فورم مہیا کروائے جائیں۔ اسی لئے چاہے شبیر شاہ ہوں یا یٰسین ملک ، عبدالغنی لون یا سید علی گیلانی، سبھی کیلئے ملاقاتوں کا نظم کروانا اور ان کی خیال رکھنے کی ذمہ داری اٹھاتے تھے، تب تک غالباً1995میں دہلی میں حریت کا دفتر نہیں کھلا، جو 2003تک کشمیر ا ویئرنس بیورو کے نام سے کام کرتا رہا۔ ایک بار میں نے گیلانی صاحب سے کہا تھا کہ آپ کو گوریلا موومنٹ جوائن کرنی چاہئے تھی۔ کیونکہ سوپور میں ایک بار انکی زبردست تلاش ہو رہی تھی۔ جگہ جگہ چھاپے پڑ رہے تھے۔ اسی دوران معلوم ہوا کہ وہ جامع مسجد میں نماز جمعہ سے قبل خطاب کرنے والے ہیں۔ کسی کو یقین نہیں آرہا تھا۔ جامع مسجد جانے والے راستوں اور اسکے آس پاس چپہ چپہ پر پولیس اور سی آئی ڈی کا جال بچھا ہوا تھا۔خطبہ شروع ہونے سے بس پانچ منٹ قبل وہ محراب کے پاس نمودار ہوئے اور تقریر شروع کی۔ 1975میں جب بھارت میں ایمرجنسی نافذ ہوئی، تو شیخ محمد عبداللہ نے جموں و کشمیر میں بھی اس کا اطلاق کرکے جماعت اسلامی پر پابندی لگا کر اس کے لیڈروں اور اراکین کو پابند سلاسل کر دیا۔ کئی روز تک گیلانی صاحب کو گرفتار کرنے کیلئے چھاپے پڑتے رہے۔ سوپور میں معروف تاجران محمد اکبر بساطی و غلام حسن بساطی، جن کے ہاں وہ اکثر ٹھہرتے تھے، کے گھروں اور دکانوں کی ایسی تلاشی ہوئی ، جیسے سوئی ڈھونڈی جاری ہو۔ اسمبلی کا سیشن جاری تھا، اور وہاں بھی سخت پہرہ تھا۔ چند روز بعد وہ اسمبلی فلور پر نمودا ر ہوئے اور دھواں دھار تقریر کرکے پھر باہر اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کردیا۔ گو کہ گیلانی صاحب عسکری تحریک کے حامیوں اور اسکے سرپرستوں میں شمار کئے جاتے ہیں، مگر اسکی خامیوں پر براہ راست مخاطب بھی ہوتے تھے، جس کی وجہ سے کئی نوجوان اور لائن آف کنٹرول کے دوسری طرف کے لوگ بھی ان سے ناراض ہو گئے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ فروری 1990میں سوپور میں اور پھر یاری پوری اننت ناگ میں انہوں نے بھرے جلسہ میں کہا کہ ـ’’سفر بڑا طویل اور راستہ بڑا ہی کٹھن اور دشوار گذار ہے۔ ٹھہر ٹھہر کر اور سنبھل کر چلنے کی ضرورت ہے۔‘‘ انہوں نے عوام سے کہا کہ غلط اندازے نہیں لگانے چاہئے، کیونکہ پنجۂ استبداد ابھی کھل کر سامنے نہیں آیا ہے۔ ایک مثال دیتے ہوئے ، انہوں نے کہا، ’’ اگر آپ کے پاس گاڑی نہ ہو اور سرینگر جانا پڑے ، تودوڑ لگا کر زیادہ سے زیادہ ایک یا دوکلومیٹر تک چل کر پھر نڈھال ہو کر گر جائوگے۔ اس کے برعکس اگر آپ آہستہ آہستہ پڑائو کرتے چلنا شروع کریں گے، رات کسی بستی میں گذاریں گے توکچھ روزینہ ساتھ لیکر سلامتی کے ساتھ منزل پالیں گے۔‘‘ جذبات سے مغلوب نوجوانوں کو ان کی باتیں بہت کھٹکیں۔چند لوگ کہہ رہے تھے کہ بڈھا سنکی ہو گیا ہے، نہ خود کچھ کرنا چاہ رہا ہے، نہ ہمیں کچھ کرنے دے رہا ہے۔ اننت ناگ کے کھنہ بل میں جہاں وہ غلام نبی سمجھی کے گھر پر ٹھہرے تھے نوجوانوں کا ایک گروپ ان سے ملنے آیا اور کہا کہ’’ آپ یہ کہہ کر کہ جدوجہد طویل اور صبر آزما ہے، مایوسی کی باتیں کر رہے ہیں۔ لوگ تو مارچ کے مہینے میں کھیتیاں جوتنے سے پہلے آزادی کی نیلم پری سے ہم کنار ہونا چاہ رہے ہیں۔سیاسی لیڈر ہماری غلط رہنمائی کر رہے ہیں یا خود بے بصیرت ہو گئے ہیں۔ـ‘‘ اس صاحب بصیرت نے نہایت ہی سلجھے ہوئے انداز میں کشمیر میں عسکری جدوجہد کی پرتیں کھول کر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے پانچ فروگذاشتوں کا ذکر کیا ہے۔ پہلی یہ کہ ’’ سرفروش نوجوانوں نے سمجھا کہ انہوں نے بھارت کو بھگا دیا ہے اور مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھنے والے سیاسی گروہ یا لیڈران کو اب ان کے ذریعے حاصل کئے ہوئے اقتدار میں شریک ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔ نتیجہ نکلا کہ عوامی جدوجہد سیاسی قیادت سے محروم ہو گئی۔‘‘ اسطرح کی ہدایات سرحد پار سے بھی ملتی تھیں۔ اس کے بعد خود حکومت نے بھی اس قیادت کو کئی برسوں تک پابند سلاسل رکھا۔دوسرا یہ کہ ’’مسلح جدوجہد شروع ہونے کے مرحلے پر تربیت حاصل کرنے کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔کئی افراد نے بندوق اپنی ذاتی خواہشات اور انتقام گیری کی تکمیل کیلئے حاصل کی۔‘‘ گیلانی صاحب کے بقول مسلح جدوجہد حصول آزادی کیلئے آخری مرحلہ ہوتا ہے اور اسی پر ان کی کامیابی اور روشن مستقبل کا انحصار ہوتا ہے، اس لئے اس کیلئے برسہا برس کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔تیسری فروگذاشت ، ’’مسلح نوجوانوں کی سرفروشانہ جدوجہد نے کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو سرد خانے سے نکال کر عالمی سطح پر ابھارنے میں کامیابی حاصل تو کرلی اور جمود توڑ دیا، مگر عوام کی بے پناہ پذیرائی نے ان میں سے بیشتر کو خود سری کے جنون میں مبتلا کر دیا ، جو گروہی تصادم کی شکل میں نمودار ہو گئی۔ہونا تو چاہئے تھا کہ گروپ مشترکہ دشمن کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اختیار کرلیں، یا اپنے دائرہ کار کے اندر کام کرلیں، مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس آپسی ٹکراو میں ایسے افراد قوم سے چھین لئے گئے ، جو ایک ایک ہزار افراد پر بھاری تھے۔ ‘‘چوتھی فروگذاشت ’’مسلح جدوجہد شروع کرنے والے اور کوئی گروپ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ تھا کہ کلا شنکوف کے بل بوتے پر بھارت کی فوجی قوت کو قبضہ سے دستبرداری پر مجبور کیا جائے، بلکہ مقصد تھا کہ بھارت کو متنازعہ حیثیت تسلیم کرنے پر تیار کیا جائے اور نتیجہ خیز بامقصد اور دیرپا حل تلاش کرنے کیلئے بات چیت کا آغاز کروایا جائے۔ مگر یہ ہدف نوجوانوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو گیا ۔‘‘ پانچویں فروگذاشت تھی کہ’’ مسلح جدوجہد کے ہر دور میں کھلے دشمن کے ساتھ چھپے دشمن بھی ہوتے ہیں۔اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنا چاہئے کہ ہم جدوجہد آزادی کے دوران فضائے بد ر پیدا نہیں کر سکے۔ اندھی فوجی قوت نے وسیع ترین پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی کا ارتکاب کیا ہے ان کے مقابلے ہمارا ریکارڈ صاف و شفاف ہو نا چاہئے تھا، جو نہیں رکھ پائے۔‘‘ 1999کی جنگ کرگل کے بعد حریت کانفرنس کے رہنماوں میں تحریک کے حوالے سے رویہ میں تبدیلی آنی شروع ہوگئی تھی۔ میر واعظ عمر فاروق، عبدالغنی لون اور دیگر زعماء کا خیال تھا کہ نئی دہلی کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ کھولنا چاہئے۔مگر گیلانی صاحب کا موقف تھا کہ جب تک بھارت اٹوٹ انگ کی رٹ بند نہیں کرتا ہے اور مذاکرات کیلئے ماحول نہیں بناتا ہے ، تب تک اسکا کوئی مطلب نہیں ہے۔ (جاری ہے)