عمران خان نے قومی اسمبلی سے استعفے دیکر کہا استعفے منظورکئے جائیں ، جب اسپیکر نے 35 ارکان کے استعفے قبول کئے تو عمران خان نے کہا کہ تمام ارکان کے استعفے منظور کئے جائیں جب سپیکر نے مزید 35 ارکان کے استعفے منظور کئے تو پی ٹی آئی ارکان کی استعفے رکوانے کیلئے دوڑیں لگ گئیں ، ارکان پہلے پارلیمنٹ پہنچے ، دروازے بند ملے ۔چیف الیکشن کمشنر سے ملے اور ڈی نوٹیفائی نہ کرنے کا کہا۔ اس طرح کی سیاست ناکامی کا سبب بنتی ہے، اس حوالے سے دیکھا جائے تو تحریک انصاف کو مخالفوں سے زیادہ اپنوںنے نقصان دیا۔ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل بھی غلط فیصلہ تھا، عمران خان جب مخالفوں سے سیاسی جنگ کر رہے ہیں تو پھر مخالف بھی وار کریں گے ۔ دو صوبے عمران خان کا بڑا مورچہ تھے، جب وہ خود مورچے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں تو مخالفوں کو آسانی ہو گئی ہے۔ پنجاب میں عمران خان کی حکومت ہوتی تو فواد چوہدری گرفتار نہ ہوتے، اب عمران خان کو خود کی گرفتاری کا بھی خطرہ ہے۔ کارکن کب تک پہرہ دیں گے؟۔ انہیں معاملات کی بہتری کیلئے اپنے رویے میں تبدیلی لانا ہو گی ، انہی سطور میں جن خدشات کا اظہار کرتا رہا ہوں اب وہی سب کچھ سامنے آ چکا ہے، اب بھی افہام و تفہیم کی طرف توجہ دینے کہ ضرورت ہے تاکہ جمہوری سسٹم چلتا رہے۔ تحریک انصاف نے اپنے 43 ارکان کے استعفوں کی منظوری اور پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کی تقرری کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اپریل2022ء میں عمران خان کی حکومت کے ہٹائے جانے کے بعد پی ٹی آئی ارکان نے قومی اسمبلی سے استعفوں کا اعلان کیا کہ جلد الیکشن ہونگے۔ حکومت نے فوری طور پر استعفے قبول نہ کئے اور اس میں اس وقت تک تاخیر کی جب عمران خان نے اعلان کیا کہ استعفے واپس لے کر شہباز شریف کی حکومت کو گرایا جائے گا اور اس کیلئے اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے کہا جائے گا یا پھر عدم اعتماد کی تحریک لائی جائیگی۔ پی ڈی ایم حکومت نے عمران خان کو قومی اسمبلی میں اپنی طاقت دکھانے سے محروم کر دیا اور پی ٹی آئی ارکان کے استعفے منظور کئے، اب اپوزیشن حکومت کی حامی بن گئی ہے اور اس میں زیادہ تر ایسے ارکان ہیں جو پی ٹی آئی کے منحرف ارکان ہیں اور اب حکومت کو ایوان میں کوئی خطرہ نہیں ۔ سیاسی اور انتظامی لحاظ سے پنجاب کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے اہم رہا ہے لیکن عمران خان نے خود ہی صوبہ پی ڈی ایم کے حوالے کر دیا جہاں پی ڈی ایم کے من پسند اب نگران وزیراعلیٰ بن چکے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ میری آواز بند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آخری سانس تک لڑوں گا۔ سیاسی حوالے سے عمران خان کی بات کو غلط نہیں قرار دیا جا سکتا۔ یہ بھی درست ہے کہ عمران خان کو سیاسی پس منظر سے پیچھے دھکیلنے کی کوشش ہو رہی ہے، ان کے اور ان کی جماعت کے خلاف انتقامی کارروائیاں بھی ہو رہی ہیں، لانگ مارچ کے دوران وہ قاتلانہ حملے میں زخمی بھی ہوئے ہیں ، ان کی سیاسی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ ملکی معیشت وینٹی لیٹر پر ہے ، مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، عام آدمی مہنگائی کے ہاتھوں کچلا گیا ہے، آٹے کے بحران نے دو وقت کی روٹی مشکل بنا دی ہے، ڈالر روز بروز مہنگا ہو رہا ہے، سونا تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے، ان حالات میں حکومت اور اپوزیشن کو سیاسی افہام و تفہیم پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک اور قوم کیلئے سوچنا چاہئے، فواد چوہدری کی گرفتاری پر بھی نظر ثانی ہونی چاہئے۔یہ ٹھیک ہے کہ عمران خان کے دور میں بھی انتقامی کارروائیاں ہوتی رہی ہیں اور نیب کو بھی سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور یہ بھی ہے کہ موجودہ حکومت نے ترامیم کر کے نیب کو کمزور اور بے اثر کر دیا ہے ورنہ کچھ بعید نہیں تھا یہی نیب خود تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف بھی استعمال ہوتی۔ سیاستدانوں کو اب یہ پریکٹس بند کرنی چاہئے ، ایک دوسرے پر الزامات کی بجائے جمہوری سسٹم کو مضبوط کرنا چاہئے اور عوام کے بارے سوچنا چاہئے۔ الیکشن کمیشن نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تمام نشستوں پر انتخابات کروانے کیلئے گورنر پنجاب میاں بلیغ الرحمن سے سے 9 اپریل تا 13 اپریل اور گورنر خیبرپختونخواہ غلام علی سے 15 اور 17 اپریل 2023ء کے درمیان تاریخ مقررکرنے کاکہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے دو صوبائی اور قومی اسمبلی کی 93 نشستوں پر ضمنی الیکشن کیلئے 20 ارب 54 کروڑ 40 لاکھ روپے مانگے ہیں۔ ضمنی الیکشن کا سب سے بڑا معرکہ وسیب میں لگے گا کہ گزشتہ الیکشن میں تحریک انصاف نے وسیب سے نمایاں کامیابی حاصل کی تھی۔ ہر چڑھتے سورج کے پجاری سیاستدان گومگو کی کیفیت سے دوچار ہیں، وہ صورتحال کو باریک بینی سے دیکھ رہے ہیں کہ آئندہ اقتدار کس جماعت کو ملے گا۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کے موڈ کو بھی دیکھ رہے ہیں کہ جس طرف اشارہ ہوگا وہ اسی طرف چلے جائیں گے ۔ روایتی سیاستدانوں کیلئے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ عمران خان کی مقبولیت کو دیکھ کر تحریک انصاف چھوڑنا بھی نہیں چاہتے مگر ان کو یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ اب تحریک انصاف کی نہیں کسی اور کی باری ہو گی۔ اس وقت بظاہر اقتدار (ن) لیگ کو مل چکا ہے مگر (ن) لیگ میں بھی سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی صورت میں نیا دھڑا پیدا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کو بھی راضی رکھا جا رہا ہے ، جماعت اسلامی کے سر پر بھی ہاتھ رکھ دیا گیا ہے، ایم کیو ایم کے منتشر دھڑوں کو بھی یکجا کر دیا گیا ہے،یہ سب کچھ عمران خان کو ایک طرف کرنے کیلئے ہو رہا ہے۔ وہی پرانی تاریخ دہرائی جا رہی ہے جس طرح کہ نواز شریف کو اقتدار سے دور کرنے کیلئے تحریک انصاف کو مواقعے فراہم کئے گئے لیکن ملکی صورتحال کا تقاضا ہے کہ جس طرح مقتدر قوتوں کی طرف سے نیوٹرل رہنے کا اعلان ہوا تھا اسی طرح تمام اداروں کو اپنا کام کرنا چاہئے اور سیاست میں بھی اخلاقیات کا پہلو نظر انداز نہیں ہونا چاہئے۔