بھولے رستوں پہ جانا ضروری نہیں اب اسے آزمانا ضروری نہیں اک اشارہ ہی کافی ہے اس نے کہا داستانیں سنانا ضروری نہیں ان حالات میں رومانس بھی تو ممکن تھا کہ کوئی کہتا اس نے مجھ سے کہا مسکراتے ہوئے۔ ہر جگہ مسکرانا ضروری نہیں۔ اس وقت سیاست پر لکھنا بہت دلچسپ ہے۔ مریم نواز کا بی بی سی کو دیا گیا انٹرویو اس وقت ہاٹ کیک اور ٹیبل آف دی ٹاک ہے۔ معاف کیجیے گا کہ اردو میں شاید اس کا وہ تاثر نہ بن سکے۔ اب کوئی بات چھپتی نہیں ہے بلکہ چھپائو تو اور زیادہ پھیلتی ہے تجسس بات کو پر لگا دیتا ہے۔ نواز شریف کی تقریروں سے کچھ ایسا ہی ہوا۔ اب مریم نواز چھائی ہوئی ہیں۔ بات غلط اور صحیح کی ہرگز نہیں کہ سیاست میں سب کچھ چلتا ہے مریم میں تلخی اور غصہ بدرجہ اتم موجود ہے۔ شاید وہ کچھ بھی نہ ہو مگر علی امین گنڈا پور کے خیالات سے پتہ چلتا ہے کہ ایک نائی نے انہیں نانی یاد دلا دی ہے۔ ویسے بھی خوبصورتی کو ٹارگٹ کرنا بدصورتی کی بات ہے۔یہ تو ظاہر ہوا کہ جن کی سیاست بقول شیخ رشید صفر ہو چکی تھی وہ پی ٹی آئی کے ایک گانے سے دس ہو چکی ہے: کچھ بھی نہیں ہوں میں مگر اتنا ضرور ہے بن میرے شاید آپ کی پہچان بھی نہ ہو محترمہ کے انٹرویو میں ’’کی نوٹ‘‘ یعنی اساس بات یہ ہے کہ یعنی ون لائن سٹوری یہی بنتی ہے کہ موجودہ حکومت کو گھر بھیجیں تو فوج سے بات ہو سکتی ہے۔ ادا جعفری یاد آ گئی کہ بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسے تو نہ تھی۔ جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی۔ بلکہ مومن بھی بے محل نہ ہو گا کہ کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔ اب موقع ملے تو گلے شکوے کی باتیں ہوں۔ شیخ رشید کہہ رہے ہیں کہ ن لیگ پر کراس لگ چکا ہے اور ملاقات کا امکان صفر بٹا صفر ہے۔ حیرت ہے کہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ سیاست میں کوئی چیز بھی حتمی نہیں ہوتی۔ سب سے بڑی مثال زرداری صاحب کی ہیں کہ لوگ شور مچاتے رہے مسٹر دس پرسنٹ اور وہ ایوان صدر میں جا براجمان ہوئے: اوربخشے گئے قیامت کو شیخ کہتا رہا حساب حساب بہرحال صبح کا بھولا ہوا شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا ہوا نہیں کہتے۔ن لیگ کے پروپرائٹر بھی نہ بھولے ہیں اور نہ پنجابی والے اتنے بھولے ہیں۔سب اپنی اپنی جگہ بہت سیانے ہیں۔ بے وقوف صرف عوام ہیں کہ دونوں طرف سے وہ استعمال ہو جاتے ہیں۔ کسی کے لئے بھی اقتدار میں آنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ عوام کو الو بنا کر دکھائے۔حکومت تو اب بھی کوشش میں ہے کہ وہ مزید الو بن جائیں پتہ نہیں الو مزید الو کیسابنتا ہے۔ سروے بتا رہا ہے کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے خاں صاحب قوم کو مشکل سے نکال چکے ہیں۔ شاید امن و سکون میں رہنا مشکل تھا۔ عجیب شور سا برپا ہے خانہ دل میں یہ کس نے آگ دکھائی ہے آشیانے کو خیر بات ہو رہی تھی مریم نواز کی کہ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ان سے رابطے وابطے کئے گئے ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے ولد کا بیانیہ تو کچھ اور ہے جسے وہ خود قائم رکھے ہوئے ہیں۔ میں بھی کہوں اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے۔اگر تو آپ کی ساری کاوش آئین کی سربلندی اور جمہوری آزادی کی بحالی کے لئے ہے تو پھر لوگ آپ کی بات پر کان دھریں گے۔ اگر یہ سارے شور شرابے کا مقصد صرف حکومت گرانا ہے تو یہ افسوسناک بات ہے۔ یہ تو پھر وہی اقتدار کے حصول کی جنگ ہو گئی وہ جو اصول اور معیار کی بات تو نہ رہی۔ دوسری طرح حکومت میں ایک اضطراب بہرحال پایا جاتا ہے کہ کہیں یہ میل ملاقات ہو نہ جائے مولانا فضل الرحمن کی پیش رفت کو شیخ رشید بھی مانتے ہیں فی الحال دو کو الگ کرنے کی کوشش ہے لیکن یہ بھی جانتے ہیں کہ بعض اوقات یوں بھی ہو جاتا ہے کہ: گلے سلے لگتے ہی جتنے گلے تھے بھول گئے وگرنہ یاد تھیں ہم کو شکائتیں کیا کیا جو بھی ہے حکومت کا حال خاصہ پتلا ہے۔ منیر نیازی کہا کرتے تھے کہ گدھے کو ہاتھ پھیر پھیر کر گھوڑا نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ آپ لاکھ جھوٹے دعوے اور وعدے کرتے رہیں مگر حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے۔ آپ حالیہ کورونا کا معاملہ دیکھ لیں کہ شادی ہال بند کروانے کے چکر میں ہیں اور خود جلسے کر رہے ہیں گلگت بلتستان کے جلسوں کا حال ہم نے دیکھا ہے کہ ایس او پیز کی ایسی کی تیسی۔ لگتا ہے حکومت کورونا سے زیادہ مریم سے ڈری ہوئی ہے کہ بلاول تو ٹریپ ہو گئے ہوئے ہیں۔ ن لیگ ایک بڑے رسک پر ہے حکومت کی پریشانی دشمن کو اہمیت دے رہی ہے آپ ذرا پوسٹیں تو پڑھیں خلقت کی زبان آپ بند نہیں کر سکتے۔ سب اپنے اپنے ڈرائونے خواب کو بھولنا چاہتے ہیں مگر خواب مرتے نہیں ہیں اور بعض اوقات تو جاگتے ہوئے بھی نظر آنے لگتے ہیں۔ جو لوگ اس پر معترض ہیں کہ مریم فوج سے کیوں بات کرنا چاہتی ہے تو وہ یہ بتائیں کہ پھر وہ کس سے بات کرے۔ بڑھکیں مارتے مارتے اور عوام کو صبر اور برداشت کی چکی میں پیسے پیسے اڑھائی سال سے زیادہ ہو گئے دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں والا معاملہ ہے لوگ نجات چاہتے ہیں ہمیشہ کی طرح پھر ان کی جان شکنجے میں ہے۔ اب کے تو پسلیاں بھی چٹخنے لگی ہیں: زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے