لاہور ( رانا محمد عظیم) پی آئی سی میں وکلا کے ایک گروپ کی طرف سے حملے کے حوالے سے اس پہلو پر تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ اس واقعہ کے پیچھے کوئی سیاسی جماعت تو نہیں یا کسی جماعت کا وکلا ونگ تو اس میں ملوث نہیں ۔ ذرائع کے مطابق اہم ترین وکلا رہنما کسی صورت میں پی آئی سی کی طرف جلوس لیکر جانے کے حق میں نہیں تھے اور وہ ڈاکٹرز کے ساتھ دوبارہ کسی قسم کی کشیدگی بھی نہیں چاہتے تھے ، ینگ لائرز کے نمائندوں کو یہ کہا بھی گیا تھا کہ وہ کچھ وقت دیں ،ہم مسئلہ کا کوئی نہ کوئی حل نکال لیتے ہیں ۔مگر وکلا کی ایک مخصوص تعداد ذہنی طور پر اس بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں تھی اور انہوں نے باقاعدہ بار کے ذمہ داران کیخلاف نعرے بازی بھی کی ۔ ایک روز قبل ایک اپوزیشن جماعت کے کچھ رہنمائوں نے اپنی نجی محفلوں میں ایسا واقعہ ہو نے کی پیشگوئی بھی کی تھی اور لگتا ہے جیسے ان کو اس معاملہ کا علم تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک اپوزیشن جماعت کے کچھ افراد بھی پرتشددمظاہرہ میں شامل تھے جن میں سے کچھ زیر تعلیم وکلا بھی تھے ۔ ساری ہنگامہ آرائی کے دوران اپوزیشن جماعت کے اہم ترین دو رہنمائوں کو لمحہ بہ لمحہ بیرون ملک اطلاع دی جاتی رہی اور یہ بھی باقاعدہ طے ہو چکا تھا کہ تین اپوزیشن جماعتیں اس واقعہ پر کسی قسم کا فوری طور پر تردیدی بیان یا مذمت جاری نہیں کرینگی۔کچھ حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وکلا کو بھڑکانے اور ڈاکٹرز کی پرانی ویڈیوز وائرل کرنے میں بھی اپوزیشن جماعت کے ملوث ہونے کے خدشات ہیں ۔ اس ضمن میں یہ بھی چیک کیا جا رہا ہے کہ واقعہ کے بعد کون کون سی سیاسی جماعت کے اہم رہنما اور انکے لائرز ونگ کن کن افراد سے رابطے میں تھے اور جس وقت ڈاکٹر یاسمین راشد ہسپتال گئیں تو ینگ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف نے کس کی ہدایت پر انکا گھیرائو کیا اور حکومت کیخلاف نعرے بازی کی۔ اہم ذرائع کے مطابق صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان پرتشدد کی فوٹیج میں سیاسی پارٹی کے لائرز ونگ کے 2 وکلا موجود ہیں۔ یہ انکشاف ہوا ہے ایک روز قبل کچھ وکلا کی میٹنگ میں بھی اس احتجاج سے متعلق خصوصی طور پر ذکر کیا گیا اور اس میں کیا پلاننگ کی گئی اس کو بھی چیک کیا جا رہا ہے ۔ الیکشن میں حصہ لینے والے کئی اہم وکلا امیدوار بھی ینگ لائرز کی حمایت حاصل کرنے کیلئے واقعہ میں متحرک ہوئے اور انکے متحرک ہونے سے نہ صرف وکلا کی تعداد بڑھ گئی بلکہ وکلا کے احتجاج کو بھی تقویت ملی ۔