صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات کو ملک میں استحکام کے لئے ضروری قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ سیاست دان ماضی سے سبق سیکھیں اور اپنے معاملات کو حل کرنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی طرف مت دیکھیں۔گورنر ہاوس لاہور میں سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ عمران خان مذاکرات سے انکاری نہیں،عمران خان کو نظام سے خارج کر کے یا ان کو گرفتار کر کے صورتحال کو بہتر نہیں بنایا جا سکتا۔صدر عارف علوی اپریل2022 سے سیاسی قوتوں کے درمیان شدت پکڑتے تصادم کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔گزشتہ برس گورنر ہاوس لاہور میں اسی طرح سینئر صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں جب ان سے مفاہمت کے لئے کردار ادا کرنے سے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے کچھ کوششوں کا ذکر کیا تھا تاہم بعد کے حالات سے معلوم ہوا کہ صدر علوی کی یہ کوششیں بار آور نہیں ہوئیں۔اس وقت تحریک انصاف کے پاس پنجاب میں اور خیبر پختونخوا میں حکومت تھی ، قومی اسمبلی سے استعفے ابھی منظور نہیں ہوئے تھے۔دو صوبوں میں حکومت اور قومی اسمبلی میں موجودگی کی وجہ سے تحریک انصاف حکومتی و ریاستی امور میں سٹیک ہولڈر تھی ۔دیکھا گیا کہ اس پوزیشن کے باوجود مئی میں عمران خان نے جب لانگ مارچ کا اعلان کیا تو حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا طرز عمل خاصا سخت تھا۔مسلم لیگ ن کی صوبائی اور وفاقی حکومت نے پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کو جس بے رحمی سے پی ٹی آئی کارکنوں کے خلاف استعمال کیا اس سے محاذ آرائی میں شدت آ گئی ۔پرویز الہی حکومت آئی تو پولیس کے بہیمانہ تشدد کے خلاف انکوائری کا آغاز ہوا، دو ہفتے قبل اس انکوائری رپورٹ میں ذمہ دار اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی۔پی ٹی آئی نے دو روز پہلے الیکشن کمیشن کو ان بیس افسران کی ایک فہرست پیش کی ہے جنہیں پی ٹی آئی دشمن سمجھا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ نگران حکومت میں ان افسران کی لاہور میں دوبارہ تعیناتی سے الیکشن کا عمل غیر شفاف بنایا جا سکتا ہے۔ممکن ہے تحریک انصاف کا یہ فقط خدشہ ہو لیکن نگران حکومت بنتے ہی ایک بار پھر گرفتاریوں اور طاقت کے استعمال کا جو مظاہرہ دیکھا جا رہا ہے اس سے سیاسی اختلاف لڑائی مارکٹائی کی شکل میں ڈھلتا دکھائی دے رہا ہے۔گویا پاکستانی سماج میں مکالمہ کی وکالت کرنے والی قوتیں اس وقت خانہ جنگی کا سامان کر رہی ہیں۔ عمومی تاثر یہی رہا ہے کہ عمران خان مذاکرات سے انکاری ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ عمران سب کو چور ڈاکو کہہ کر ان کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کرتے ہیں ۔صدر مملکت نے اس تاثر کی نفی کر دی ہے ۔ ان کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ بات چیت نہ کرنے کا فیصلہ حکومت کا ہے ۔یہ امر بھی حکومت اپوزیشن تعلقات میں کلیدی رہا ہے کہ دونوں نے پارلیمنٹ جیسے پلیٹ فارم کو جمہوری روایات کے مطابق استعمال نہیں کیا۔کچھ عرصے کے واقعات بتاتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو متنازع بنایا گیا۔ سینٹ الیکشن کے دوران پہلے اپوزیشن پی ڈی ایم اور پھر پی ٹی آئی حکومت کو دھاندلی کی شکایت ہوئی،قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کامیاب کرانے کے لئے کچھ اراکین کو منحرف کرانا، کچھ کا استعفیٰ منظور کرنا ، استعفے منظور کرنے کے لیئے متضاد جواز پیش کرنا، پھر پی ٹی آئی کی جانب سے واپسی کے اشارے پر تمام اراکین کے استعفے منطور کرنا اور حلف کے معاملات جھگڑا بڑھانے کا سبب بنے ۔اس دوران حکومت یا اپوزیشن کی جانب سے مفاہمت کی کوشش نہ ہونے کے برابر تھی۔ صدر علوی اپنی کوششوں میں کامیاب ہو چکے ہوتے اگر انہیں طاقت کے دیگر ستون مدد فراہم کرتے۔ مفاہمت پاکستان کی ضرورت ہے اسے کسی سیاسی جماعت کی کامیابی یا نا کامی خیال نہیں کیا جانا چاہئے۔فنانشل ٹائمز کی حالیہ رپورٹ تشویشناک ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی معیشت ڈوبنے کو ہے۔رپورٹ بتاتی ہے کہ ملک کو سری لنکا جیسے خطرات کا سامنا ہے ،زرمبادلہ کے ذخائرکم ہو کر ساڑھے تین ارب ڈالر ہو چکے ہیں،بندرگاہ پر درآمدی مال کے کنٹینر پڑے ہیں لیکن خریداروں کے پاس ڈالر نہیں۔کراچی چیمبر کے اراکین نے گورنر سٹیٹ بنک کو اپنے کارخانوں کی چابیاں دیدیں کہ حکومت خود چلائے، اپٹما کے وفد نے امریکی سفیر سے دو ارب ڈالر قرض مانگ لئے ،لاہور چیمبر نے امریکی سفیر کو مدعو کیا اور مدد کی درخواست کی، امریکی سفیر سیالکوٹ گئے تو وہاں کے تاجروں نے بھی مدد کی درخواست کی۔یقینا امریکہ پاکستان کی مدد کر سکتا ہے لیکن یہ سوال حکومت سے کیا جا سکتا ہے کہ اس نے ملک میں بڑھتی بے چینی، سیاسی عدم استحکام اور معاشی تباہی کو روکنے کے لئے کیا کارکردگی دکھائی؟ حکومت کا کام بحران ختم کرنا ہوتا ہے لیکن پاکستان میں حکومتیں بحران پیدا کرتی ہیں اور پھر ان بحرانوں سے اپنے مفادات کی تکمیل کا راستہ نکالتی ہیں ۔نتیجہ کے طور پر سیاسی قوتیں اور سیاسی جھگڑالو جیت جاتے ہیں لیکن ملک ناقابل تلافی نقصان سے دو چار ہو جاتا ہے۔ملک کے حالات تیزی کے ساتھ زوال کا شکار ہو رہے ہیں۔ صدر عارف علوی نے مشکل حالات میں مفاہمت کی بات کی ہے ،سیاسی قائدین کو ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کے ایجنڈے پر مشاورت کا آغاز کرنا چاہئے۔امید ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کی پہلی اطلاع کے ساتھ ہی معیشت سنبھلنا شروع ہو جائے گی۔