سپریم کورٹ نے سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ یا خفیہ بیلٹ کے ذریعے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے نہیں کروائے جا سکتے۔چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے آئین کے آرٹیکل 186کے تحت دائر کئے گئے صدارتی ریفرنس پر فریقین کے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد چار روز قبل فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ انتخابی عمل شفاف بنانے کے لیے پارلیمنٹ میں قراردادیں منظور ہوتی ہیں۔واضح رہے کہ صدر مملکت عارف علوی نے سپریم کورٹ سے رائے لینے کے لیے صدارتی ریفرنس 23 دسمبر 2020 ء کو سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا۔ صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ میں مجموعی طور پر 20 سماعتیں ہوئیں، پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان کی صوبائی حکومتوں سمیت سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ نے اوپن بیلٹ کی حمایت کی جبکہ سندھ حکومت نے اوپن بیلٹ کو خلاف آئین قرار دیتے ہوئے مخالفت کی۔صدارتی ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ ماضی میں ہونے والے سینٹ انتخابات آئین کے تحت نہیں کروائے گئے۔ اوپن بیلٹ سے سینٹ الیکشن میں شفافیت آئے گی، خفیہ ووٹنگ کے سبب سینٹ الیکشن کے بعد شفافیت پر سوال اٹھائے جاتے ہیں، خفیہ بیلیٹنگ سے ارکان کی خرید و فروخت کیلئے منی لانڈرنگ کا پیسہ استعمال ہوتا ہے۔ریفرنس میں آئین میں ترمیم کیے بغیرخفیہ بیلٹ سے متعلق شق میں ترمیم پررائے مانگی گئی ، صدارتی ریفرنس میں رائے مانگی گئی کہ آئین میں سینٹ انتخابات کا واضح طریقہ موجود نہیں۔صدارتی ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 226 کی تشریح کرے،سپریم کورٹ رائے دے کہ کیا سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے ہوسکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے رائے ایک چار کی نسبت سے دی گئی، جسٹس یحییٰ آفریدی اپنے رائے کا اظہار الگ سے تحریر کیا۔ سپریم کورٹ نے اپنی رائے میں کہا کہ الیکشن کمیشن شفاف الیکشن کیلئے تمام اقدامات کر سکتا ہے، انتخابی عمل سے کرپشن ختم کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، تمام ادارے الیکشن کمیشن کے ساتھ تعاون کے پابند ہیں۔سپریم کورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کرپشن کے خاتمے کیلئے ہر قسم کی ٹیکنالوجی کا استعمال کر سکتا ہے، الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ وہ کرپٹ پریکٹس کے خلاف کارروائی کرے، تمام ایگزیکٹو اتھارٹیز الیکشن کمیشن سے تعاون کی پابند ہیں۔عدالت کے مطابقسینٹ انتخابات آئین کے تابع ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں قرار دے چکا ہے کہ رازداری کبھی بھی مطلق نہیں ہوسکتی، ووٹنگ میں کس حد تک رازداری ہونی چاہیے یہ تعین کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے سوال صرف آرٹیکل 226 کے نفاذ کا معاملہ ہے، کیا وجہ ہے کہ انتخابی عمل سے کرپشن کے خاتمے کے لیے ترمیم نہیں کی جا رہی؟ صدارتی ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ ماضی میں ہونے والے سینٹ انتخابات آئین کے تحت نہیں کروائے گئے۔ اوپن بیلٹ سے سینٹ الیکشن میں شفافیت آئے گی، خفیہ ووٹنگ کے سبب سینٹ الیکشن کے بعد شفافیت پر سوال اٹھائے جاتے ہیں، خفیہ بیلیٹنگ سے ارکان کی خرید و فروخت کیلئے منی لانڈرنگ کا پیسہ استعمال ہوتا ہے۔حکومت کا خیال ہے کہ سیاسی نظام میں اہل افراد کا داخلہ ووٹوں کی خریدوفروخت نے مسدود کر رکھا ہے۔ سینٹ کے انتخابات تحریک انصاف کے اقتدار میں پہلی بار ہو رہے ہیں۔ بلا شبہ ان رپورٹس پر یقین کیا جا سکتا ہے جن میں کے پی کے‘ بلوچستان اور سندھ کے بعض اراکین اسمبلی کے بک جانے کا انکشاف کیا جاتا ہے۔ پنجاب میں حکومت اور اپوزیشن نے مل کر اس مسئلے کا حل بخوبی تلاش کیا اور آئین میں متناسب نمائندگی کی شرط پر عمل کرتے ہوئے تمام سینیٹرز کو بغیر ووٹنگ کے منتخب کر لیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان اس معاملے پر اتفاق رائے موجود تھا جسے فعال کیا جا سکتا تھا۔آئین میں موجود شرط یا پابندی کو ہٹانا ہوتو اس کا سب سے موثر اور موزوں طریقہ پارلیمنٹ سے رجوع کرنا ہوتا ہے۔ حکومت احتساب کے ایجنڈے پر عمل درآمد میں غیر لچکدار رہنے یا پھر سیاسی سطح پر ضروری مفاہمت پیدا نہ کر پانے کی وجہ سے پارلیمنٹ کی بجائے صدارتی آرڈیننس اور صدارتی ریفرنس کی طرف چلی گئی۔ آئینی و قانونی طریقہ کار کو سمجھنے والے جانتے تھے کہ اس ریفرنس پر سپریم کورٹ کس طرح کی رائے دے سکتی ہے۔ اس آئینی معاملے پر حسب منشا ترمیم کے لئے حکومت نے پارلیمنٹ سے منظوری نہ لینے اور عدالت سے رجوع کا فیصلہ کر کے جانے کیوں وقت ضائع کیا۔ اس سے یہ نقص سامنے آیا ہے کہ حکومت کچھ معاملات کی درست انجام دہی سے واقف نہیں یا پھر ان معاملات میں پارلیمنٹ کو کسی وجہ سے اعتماد میں نہیں لینا چاہتی۔ معزز سپریم کورٹ کی جانب سے اگرچہ ووٹنگ کا عمل خفیہ رکھنے کے حق میں رائے دی گئی ہے لیکن اس سماعت سے حکومت کو اس حد تک فائدہ ضرور ہوا کہ وہ ووٹنگ کے سارے عمل کو خفیہ رکھنے کی تشریح بدلنے میں کامیاب ہوئی۔ عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمشن کو اس بابت جو ہدایات جاری کی ہیں ان پر عمل کیا جائے گا۔ عملدرآمد کے دوران کسی نہ کسی مرحلے پر مکمل راز داری برقرارنہ رہے گی ایسا ہو گیا تو وہ اراکین جن کی وفاداری پر شک ہو یا شبہ ہوا کہ انہوں نے اپنا ووٹ پارٹی کی بجائے کسی اور کو روپے کے بدلے فروخت کیا ہے‘ ان کا پتہ چلایا جا سکے گا۔ یہ بات ووٹنگ کو شفاف رکھنے کے لئے ایک دبائو کا کام کر سکتی ہے۔