وفاقی حکومت نے چینی سرمایہ کاری اور گوادر پورٹ پر تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے سی پیک اتھارٹی اور ٹیکس چھوٹ کا صدارتی آرڈیننس جاری کردیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے دورہ چین سے قبل اس آرڈیننس کے اجراء کا مقصد دوست ملک کے بعض تحفظات کو دور کرنا اور تجارت و سرمایہ کاری کے اس سٹریٹجک منصوبے کو غیر ضروری ضابطہ جاتی وانتظامی رکاوٹوں سے بچانا ہے۔ صدارتی آرڈیننس کے مطابق سی پیک منصوبوں میں اب متعدد وزارتوں، محکموں اور صوبائی حکومتوں کا کردار سی پیک اتھارٹی کو تفویض کر دیا گیا ہے۔ اتھارٹی کے افسروں کو نیب اور دیگر اداروں کی کارروائی سے قانونی تحفظ حاصل ہوگا۔ آرڈیننس کے تحت سی پیک منصوبوں کی ملکیت اور اختیار اتھارٹی کو منتقل کردیا گیا ہے جو غیر ملکی فنڈز، قرض اور گرانٹ کو استعمال کرنے کی مجاز ہوگی۔ چینی کمپنیوں کو گوادر پورٹ اور فری زون میں انکم اور سیلز ٹیکس کی رعایت حاصل ہوگی۔ بحری جہازوںاور ٹرمینل کے لیے تیل کی درآمد پر چار سال کے لیے کسٹمز ڈیوٹی کی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ سی پیک اتھارٹی کا سربراہ خود وزیر اعظم ہو گا اور چیئرمین کہلائے گا جبکہ چھ اراکین ہوں گے۔ ایک بیسویں گریڈ کا افسر چیف ایگزیکٹو آفیسر اور دو ڈائریکٹرز اس اتھارٹی کا حصہ ہوں گے۔ سی پیک پاکستان کی جغرافیائی حیثیت کا ایک اقتصادی پہلو پیش کرتا ہے۔ عشروں پہلے پاکستان اور چین کی قیادت اس راہداری منصوبے کے متعلق سوچتی رہی ہے۔ چند ماہ قبل قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران عمر ایوب نے دعویٰ کیا کہ ان کے دادا ایوب خان اور چینی حکومت میں اس سلسلے میں جو بات چیت ہوتی رہی اس کاریکارڈ ان کے پاس ہے۔ شوکت عزیز جب وزیر اعظم تھے تو انہوں نے معاشی بحالی کے اس منصوبے کے طور پر اقصائے چین سے گوادر تک پاک چین راہداری پر سوچ بچار کی جو آگے نہ بڑھ سکی۔ اس منصوبے کا آغاز میاں نوازشریف کے دور میں ہوا۔ شاہراہیں تعمیر کی گئیں، پل تعمیر ہوئے اور صنعتی زونز کے علاقوں کی ترقی کا عمل شروع ہوا۔ اس منصوبے پر ابتدائی طورپر چین نے 35 ارب ڈالر خرچ کرنے کا اعلان کیا۔ بعدازاں یہ سرمایہ کاری پچاس ارب ڈالر کے لگ بھگ پہنچ گئی۔ چین کا فائدہ یہ ہے کہ اس کے دور دراز کے پسماندہ علاقوں میں نئی صنعتیں لگا کرپیداوار اور مصنوعات کئی ہفتوں کی مسافت سے بچ کر گوادر پورٹ تک پہنچ جائیں گی جہاں سے انہیں دنیا کے دیگر علاقوں تک پہنچا دیا جائے گا۔ پاکستان کا فائدہ یہ ہے کہ سکیورٹی تنازعات نے اس کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ سی پیک منصوبوں کے ذریعے پاکستان کی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کا موقع مل رہا ہے۔ پاکستان اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ مسلم لیگ ن کی گزشتہ حکومت سی پیک کو شروع کرنے کا کریڈٹ لیتی رہی ہے، اسے یہ کریڈٹ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت سمجھتی ہے کہ سی پیک منصوبوں میں ایسے منصوبے بھی شامل کرائے گئے جن کا اقتصادی راہداری سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ان کا مقصد ن لیگ کی سیاست چمکانا تھا۔ اس سلسلے میں لاہور کے اورنج ٹرین منصوبے کا ذکر ہوتا ہے جس پر ڈھائی سو ارب روپے کے لگ بھگ کی رقم خرچ ہو چکی ہے۔ سابق حکومت کی غلط ترجیحات کا یہ نقصان ہوا کہ ملک پر ایسے قرضوں کا بوجھ بڑھتا گیا جن کی بروقت ادائیگی کا قابل بھروسہ نظام موجود نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ چینی حکومت مسلم لیگی دور میں مسلسل یہ شکایت کرتی رہی کہ ٹیکس نظام اور انتظامی معاملات میں چینی کمپنیوں کو دشواری کا سامنا ہے۔ اس دشواری کا فائدہ اٹھا کر بعض سرکاری ادارے اور افسران بدعنوانی کے ارتکاب میں بے خوف ہو چکے تھے۔ سی پیک کے انچارج وزیر احسن اقبال اور ان کے ساتھی ان انتظامی مشکلات کا ادراک کرنے میں ناکام رہے۔ مسائل کو بروقت حل نہ کرنے سے ان کی شدت اور سنگینی میں اضافہ ہوتا رہا۔ یہ صورت تحال تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد بھی برقرار رہی جس کی اصلاح کے لیے حکومت نے سی پیک اتھارٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سی پیک اتھارٹی کے قیام سے فوری طور پر چینی سرمایہ کاری میں آئی رکاوٹیں دور ہو جائیں گی۔ سرمایہ کاروں کو ایک وزارت سے دوسری وزارت اور ایک دفتر سے دوسرے دفتر کے چکر لگانے سے نجات مل جائے گی۔ چینی حکام اور سرمایہ کار پاک فوج کے اس محافظ یونٹ سے براہ راست بات نہیں کرسکتے جو سی پیک کی حفاظت کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ سی پیک اتھارٹی تمام معاملات کی مختار ہونے کے باعث وقت ضائع کئے بغیر ایسے ضروری معاملات کو نمٹا سکے گی۔ وزیراعظم نے معاشی بحالی کے جن منصوبوں کے لیے حلف اٹھاتے ہی جدوجہد کی ان کے ثمرات سامنے آنے لگے ہیں۔ متحدہ عرب امارات آئل ریفائنری لگانے کے لیے آمادہ ہے۔ سعودی سرمایہ کاری آ رہی ہے۔ افغانستان کا تنازع طے ہونے کی شکل میں خطے کے جن دو ممالک کو سب سے زیادہ فائدہ ہوسکتا ہے وہ پاکستان اور ایران ہیں۔ اپنا سالانہ بجٹ بنانے کے لیے ہرسال آئی ایم ایف اور امریکہ کی منت سماجت کرنا پڑتی ہے۔ سی پیک کی کامیابی کا مطلب خود انحصاری کی طرف سفر ہے۔ عمران خان وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کے بعد تیسری بار چین جا رہے ہیں۔ چینی قیادت کے ساتھ ان کے ذاتی مراسم بہتر ہوئے ہیں۔ وہ سی پیک منصوبے اور اس کی عالمی معیشت میں اہمیت سے واقف ہونے کے باعث رکاوٹوں کو دور کرنے کے حامی ہیں۔صدارتی آرڈیننس پاکستان اور چین دونوں کی ضروریات پوری کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔