حکومت نے سی پیک منصوبوں میں پاکستان میں قیام پذیر ہزاروں چینی باشندوں کے بجائے پاکستانی پروفیشنلز اور ٹیکنیکل افراد کی خدمات کو لازمی قرار دیا ہے۔ چین کے سفارت خانے کے اعدادو شمار کے مطابق 2 ہزار 5 سو 11 افراد پاکستان میں مختلف سی پیک اور نان سی پیک منصوبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس گیم چینجر منصوبے کی تکمیل کے لئے حکومت نے چینی انجینئرز کو فول پروف سکیورٹی فراہم کر دی ہے اور بلاشبہ ہمسایہ ملک کے ماہرین کی خدمات ملکی ترقی کے لئے ناگزیر بھی ہیں۔ بدقسمتی سے سی پیک کی آڑ میں چین سے متعدد افراد پاکستان آ کر نجی طور پرمقیم اور مختلف کاروبار کر رہے ہیں اور کچھ کے خلاف قانون اور غیر اخلاقی کاموں میں ملوث ہونے سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں چینی باشندوں کا اے ٹی ایم مشینوں سے رقوم نکالنے اور شادی کرکے غیر اخلاقی دھندوں میں ملوث پایا جانا اس کا ثبوت ہے۔ پاکستان اور چین کے بے مثال تعلقات کو اس قسم کے ناپسندیدہ افراد کی کا رستانیوں سے نقصان پہنچ رہا ہے ۔ پاکستانی ماہرین کی خدمات کو لازمی قرار دینے کے فیصلے سے نہ صرف قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہو گی بلکہ ملک میں بے روزگاری کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ بہتر ہو گا حکومت چین سے وزٹ ویزا پر آنے والوں کے کام کرنے پر بھی پابندی لگائے تاکہ معیشت کو دستاویزی بنانے کے ساتھ برادر ملک سے تعلقات کو متاثر ہونے سے بچایا جا سکے۔