چند ہفتے پہلے چینی کمپنیوں نے پاکستان میں دو بڑے ترقیاتی منصوبے مکمل کیے۔ بلوچستان کے علاقہ حب میں کوئلہ سے بجلی بنانے کا پلانٹ اور دوسرے ملتان سے سکھر تک موٹروے۔ دونوں منصوبے چینی سرمائے سے تعمیر کیے گئے۔ یہ کامیاب منصوبے اُس منفی پراپیگنڈے کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہیں جو پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کے خلاف ایک مخصوص لابی پھیلاتی رہتی ہے کہ یہ پاکستان پر ایک بوجھ ہے۔ مخالفین کو اصل خطرہ یہ نہیں ہے کہ ہم چین کے دست نگر ہوجائیں گے بلکہ امریکہ اور اسکے زیر اثر مالیاتی اداروں کے چُنگل سے نکل جائیں گے۔ چینی سرمایہ کاری سے پاکستان معاشی طور پر اپنے پاوں پر کھڑا ہوجائے گا تو آئی ایم ایف ایسے ادارے اسکا گلا نہیں گھونٹ سکیں گے۔ چین کی پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا پروگرام عرف عام میں سی پیک کہلاتا ہے۔ پاکستان میں بجلی بنانے اور انفراسٹرکچر کو جدید بنانے کیلیے پہلے کبھی اتنے کم وقت میں اس بڑے پیمانے پر بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہوئی جتنی چین 2015 ء سے کررہا ہے۔ عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک بھی پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کیلیے رقوم فراہم کرتے آئے ہیں لیکن سست رفتاری سے۔ ان کے برعکس سی پیک ایک پندرہ سالہ تیز رفتار پروگرام ہے اور چار برسوں میں اس نے پاکستان میں بجلی کی قلت دور کردی۔ ہمارے ملک کے حالات میں یہ ایک معجزہ سے کم نہیں۔ لوڈ شیڈنگ نے ملک میں صنعتی ترقی کو بہت نققصان پہنچایا جسکا ملکی برآمدات پر منفی اثر پڑا۔ اب کارخانوں کو بلا تعطل بجلی کی فراہمی ممکن ہوگئی ہے۔ حب میں شروع ہونے والا تازہ ترین 1320 میگاواٹ بجلی بنانے کا منصوبہ نیشنل گرڈ کو سالانہ نو ارب کلو واٹ بجلی مہیا کرے گا۔ چینی کمپنیاں پاکستان میں بجلی کی ترسیل بہتر بنانے کیلیے بھی جدید ترین ٹرانسمیشن لائن بچھانے جارہی ہیں۔ سی پیک کے تحت اب تک تیرہ بڑے منصوبے مکمل کیے جاچکے ہیں۔ مجموعی طور پر چین پاکستان میں پندرہ برسوں میں62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ بہت سے منصوبے چینی حکومت کے رعایتی قرضوں کی مدد سے بنائے جارہے ہیں جن پر شرح سود صرف دو فیصد ہے۔ ان کی واپسی کا دورانیہ بھی خاصا طویل ہے۔ گوادار بندرگاہ کے ایک منصوبہ کے لیے تو چینی حکومت نے بلا سود قرض فراہم کیا ہے۔ بعض منصوبوں جیسے بجلی بنانے کے پلانٹس پر چینی کمپنیوں نے سرمایہ لگایا ہے۔ ان پر شرح سود چھ فیصد ہے۔ ان سے ہماری معیشت کی آمدن اور پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سرمایہ کاری پر منافع ادا کرنے کیلیے عوام پر ٹیکس نہیں لگانا پڑے گا۔ حال ہی میں ملتان سے سکھر تک بننے والی شاندار موٹر وے تقریبا چار سو کلومیٹر طویل ہے۔ اس شاہراہ نے دونوں شہروںکے درمیان سفر کا دورانیہ سات گھنٹے سے کم کرکے ساڑھے تین گھنٹے کردیا ہے۔ حیدرآباد سے سکھر تک موٹروے پرکام شروع ہوجائے تو کراچی سے پشاور تک مسلسل چھ رویہ بہترین سڑک مکمل ہوجائے گی۔ تاہم اس موٹروے بنانے پر کام شروع نہیں ہوسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ ایک برس سے سی پیک پر عمل درآمد کی رفتار سست پڑ گئی ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان پر پابندی لگادی ہے کہ وہ ترقیاتی کاموںکے لئے ایک خاص حد سے زیادہ قرضے نہیں لے سکتا تاکہ اسے دوبارہ زر مبادلہ کے بحران کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ پی ٹی آئی کے حکمرانوں کی ناتجربہ کاری بھی ان منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو اس معاملہ میں مداخلت کریں اور سی پیک کو مہمیز دیں۔ سی پیک پر عمل درآمد کی رفتار بڑھانے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ان منصوبوں سے ملک میں طاری معاشی جمود توڑنے میں مدد ملے گی۔ تعمیرات سے سیمنٹ‘ ریت‘بجری کی کھپت بڑھ جائے گی‘ کارخانے لگنے سے مزدوروں اور ہنرمندوں کی مانگ میں اضافہ ہوگا۔ سرمایہ مارکیٹ میں گردش میں آئے گا۔ تاہم چینی سرمایہ کاری کیلیے درست ترجیحات مقرر کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ سی پیک کے تحت ریلوے کی تجدید کا ایم ایل ون پروگرام اور پاکستان ٹیلی وژن کو ڈیجیٹل بنانے کے منصوبے ذرا تاخیر سے بھی شروع کیے جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ پشاور سے کراچی تک موٹر ویز کی تعمیر اور شاہراہ ریشم کے موٹروے سے منسلک ہونے کے بعد ٹرانسپورٹ کا مسئلہ تو بہت حد تک حل ہوگیا ہے۔ اب ہمیں ٹرانسپورٹ کی بجائے گوادر بندرگاہ کی جلد ترقی اور صنعتوں کے قیام کو ترجیح دینی چاہیے۔ پاکستان نے گزشتہ تیس برسوں میں اپنی زیادہ تر توجہ موٹر ویزبنانے پر مرکوز رکھی۔ صنعتی ترقی کو نظر انداز کیا۔ بھارت میں تو کوئی موٹر وے نہیں‘ عام سڑکیں ہیں لیکن وہ صنعتی ترقی میں ہم سے کہیں آگے نکل گیا۔ اس وقت ہمیں ایسے کاموں پر رقم خرچ نہیں کرنی چاہیے جن سے ملک کی پیداوار میں فوری اضافہ نہ ہو۔ البتہ اگر حکومت کسی بڑے ڈیم کی تعمیر کو سی پیک کا حصہ بنالے تو ملک کو بہت فائدہ ہوگا۔ سی پیک میں خصوصی اکنامک زون (معاشی علاقے) بنائے جانے کا پروگرام شامل ہے تاکہ وہاں پر کارخانے لگائے جاسکیں۔ ان کے قیام میں بھی تاخیر ہورہی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور ادارے اپنی اپنی زمین کی زیادہ قیمت وصول کرنے کے لالچ میں دیر کرتے جارہے ہیں۔ معاشی زون کی زمین لینے کے لیے قانون سازی کرکے اس عمل کو آسان بنایا جائے۔ حکومت اگر پورٹ قاسم والا معاشی زون ترجیحی بنیادوں پر شروع کرکے مکمل کرلے تو بہت فائدہ مند ہوگا کیونکہ یہ بندرگاہ اور کراچی شہر سے قریب ہونے کے باعث سرمایہ کاروں کے لئے زیادہ پُر کشش ہے۔ اسی طرح فیصل آباد کا نیا مجوزہ معاشی انڈسٹریل ایریا بھی سرمایہ کاری کے لیے بہتر جگہ ہے۔ ہمیں دور دراز جگہوں پر درجن بھر صنعتی علاقوں پر ایک دم کام شروع کرنے کی بجائے اس وقت ایک دو بڑے زون ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے چاہئیں کیونکہ سرمایہ کار دور دراز علاقوں میں جانا فی الحال پسند نہیں کریں گے کیونکہ ان جگہوں پر ہنرمند افراد‘ مزدور اور شہری سہولتیں موجود نہیں۔ انہیں ترقی دینے میں بہت وقت لگے گا۔ ایک دفعہ ملک میں معاشی ترقی اور استحکام آجائے تو پس ما ندہ علاقوں میں بھی صنعتی علاقے بنائے جاسکتے ہیں جو ان کا حق ہے۔ اس وقت تو ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اِدھر اُدھر بھٹکنا ٹھیک نہیں۔