پی ٹی آئی کی حکومت کو سمجھ نہیں آ رہی کہ سی پیک کو کس طرح ڈیل کیا جائے۔ ابھی تک یہی سمجھنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ سی پیک کی سٹریٹجک ، جغرافیائی اور معاشی اہمیت کو کس طرح جامع پالیسی کے بیانیہ میں تبدیل کیا جائے۔ دوسری طرف سی پیک کے خطہ میں سیاسی اور جغرافیائی اثرات اور سٹریٹجک اہمیت کے بارے میں اس قدر ابہام پیدا کر دیا گیا ہے کہ بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے تیار نہ تھی۔ یہ حکومتی بے یقینی کا ہی نتیجہ ہے کہ حکومت کی طرف سے سی پیک کے بارے میں بے سروپا بیانات داغنے کا سلسلہ شروع ہوا ، جس میں چین کو اعتماد میں لیے بغیر سعودی عرب کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت کا بیان بھی شامل تھا اسی طرح سی پیک کو زرعی شعبہ تک وسعت دینے کی بات ہوئی۔ بلا شبہ اس حوالے سے سی پیک کے طویل المدتی منصوبے بھی تھے مگر ایک دو برس پہلے اس حوالے سے بیانات داغ دیے گئے جن پر سٹیک ہولڈرز کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ البتہ چین کی طرف سے ان غیر ضروری بیانات کے حوالے سے ایک محتاط رویے نے نہ صرف حکومت کو محفوظ راستہ فراہم کیا بلکہ قومی اہمیت کے اس منصوبے کو متنازعہ ہونے سے بھی بچا لیا۔ راقم الحروف کا دنیا کے مختلف ممالک کے سرمایہ کاروں سے اس حوالے سے مکالمہ ہوا ہے۔ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس طرح کے سٹریٹجک منصوبے ایک تو کم شفاف ہوتے ہیں دوسرے سیاست زدہ ہونے کے باعث غیر محفوظ ہوتے ہیں ان کا خیال ہے کہ اس قسم کے منصوبوں میں سیاسی مداخلت ان کو مزید غیر محفوظ بنا دیتی ہے۔ جب سرمایہ کاروں کو مشرقی ایشیا سے افریقا تک سرمایہ کاری کے متعدد مواقع میسر ہوں گے توپھر سرمایہ کار سی پیک میں سرمایہ لگانا کیوں چاہے گا؟ باوجود اس کے کہ عالمی سرمایہ کاروں کو اس سٹریٹجک منصوبے کے بارے میں تحفظات ہیں پھر بھی اس کی کامیابی کے لیے سرمایہ کاروں اور فریق حکومتوں کی تائید ضروری ہے۔ بسااوقات حکومت دونوں ممالک کے تعلقات کی گہرائی کو مدنظر رکھتے ہوئے سرمایہ کاری کی اجازت دے دیتی ہے مگر یورپ سے شمالی امریکہ تک کے سرمایہ کاروں کے لیے چین کے لیے تزویراتی اہمیت کے اس منصوبے میں سرمایہ کاری کرنا خاص مشکل ہو گا۔ جاپان اور کوریا بہرحال تزویراتی پہلوئوں سے کسی حد تک بے نیاز ضرور ہیں مگر ان ممالک کے سرمایہ کار بھی اس ماحول میں سرمایہ لگانے سے گریز کریں گے جب چین کے سرمایہ داروں کو بہت زیادہ اہمیت دی جائے گی۔‘جب چین کی کمپنیوں کو ٹھیکوں میںخصوصی مراعات حاصل ہوں گی۔ سمجھا یہی جا رہا ہے کہ سی پیک کے اقتصادی زونز میں بھی چین کی کمپنیوں کو فوقیت دی جائے گی۔حیران کن امر یہ ہے کہ چین کی کمپنیوں کو بھی اپنے سرمایہ کے تحفظ اور منافع کے حصول کے بارے میں تحفظات ہیں۔ بہت سی کمپنیوں کو پاکستان میں افسر شاہی کے سرخ فیتے اور پیداوار کی کھپت کے حوالے سے شکایات ہیں۔ یہ کمپنیاں بھی غیر محفوظ منصوبوں میں سرمایہ کاری سے گریزاں ہیں اور ایسے منصوبوں میں مقامی کمپنیوں سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ جہاں تک مقامی سرمایہ کاری کا تعلق ہے تو مقامی سرمایہ کار ان خصوصی اقتصادی زونز کے بارے میں ابھی تک لاعلم ہے۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ یہ اقتصادی زونز چین کی کمپنیوں کے لیے مخصوص ہوں گی۔ چین بھی چند ایشیائی ممالک کو ان اقتصادی زونز میں سرمایہ کاری کے لیے آمادہ کر رہا ہے۔ سی پیک کی تزویراتی اہمیت ہی ان منصوبوں کے سرمایہ دار دوست منصوبہ بننے کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ بظاہر چین بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے مگر اس کے باوجود بھی ان منصوبوں میں دوسرے ممالک شمولیت پر آمادہ دکھائی نہیں دیتے در حقیقت اب یہ چین کے لیے چیلنج بن چکا ہے اور سی پیک میں غیر ملکی سرمایہ کاری چین کے سرمایہ کاروں کو ان منصوبوں میں ترغیب دینے کے لیے بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے سی پیک کے حوالے سے پاکستان کے متعدد تحفظات پر سمجھوتہ کیا ہے تاکہ اسے متنازعہ بنانے سے بچا جا سکے لیکن چین ایسا ہرگز نہیں چاہے گا کہ سی پیک کو عالمی سطح پر اس کی سٹریٹجک اہمیت سے یا پھر خطہ میں چین کی گرفت مضبوط کرنے کے حوالے سے دیکھا جائے۔ سعودی عرب کی سی پیک میں سرمایہ کاری کے بارے میں چین کے تحفظات کے حوالے سے بھی یہی سوچ کارفرما بتائی جا رہی ہے کہ چین نہیں چاہتا کہ یہ منصوبہ سعودی عرب اور ایران کی باہمی مخاصمت کی نظر ہو جائے۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب سے بیل آئوٹ کرنے کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ ماسوائے اس کے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پاکستان پر قرضوں کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا یا پھر ان قرضوں کی ادائیگی کے حوالے سے واضح پالیسی نہیں، اس معاملہ کو سی پیک کے حوالے سے بہت زیادہ سیاسی ایشو بنا دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سی پیک کے گیم چینجر ہونے کے دعوئوں نے بھی خطہ کے دیگر ممالک کو خدشات کا شکار کر دیا ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی سی پیک کے معاشی اور کمرشل پہلوئوں کو اجاگر کرنے میں ناکام رہی ہے اور اس منصوبہ کو صرف خطہ کی ایشیائی ریاستوں تک رسائی اور پاکستان کی خطہ میں ہمسایہ ممالک کے معاملے میں برتری کے نقطہ نظر سے ہی دیکھا گیا ہے۔یا پھر یہ کہ خطہ کے وسائل پاکستان سے ہو کر گزریں گے تو لامحالہ پاکستان کو بھی فائدہ ہو گا۔ اس طرح اس منصوبہ کو راہداری بناکر دکھایا گیا ہے۔ سی پیک کو اقتصادی راہداری کے تناظر میں دیکھنے کے رجحان نے اس منصوبہ کے معاشی فوائد کو محدود کر دیا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ نئی حکومت کا رویہ بھی اس حوالے سے بہت زیادہ خطرناک ہے۔