ملیں ہم کبھی تو ایسے کہ حجاب بھول جائے میں سوال بھول جائوں تو جواب بھول جائے کبھی تو جو پڑھنے بیٹھے مجھے حرف حرف دیکھے تری آنکھیں بھیگ جائیں تو کتاب بھول جائے آج میں نے قصداً ایسے اشعار لکھے کہ کچھ معاملہ ہی ایسا ہے کہ مفتی قوی صاحب اور حریم شاہ ایک مرتبہ پھر سوشل میڈیا پر وائرل ہیں اور بقول فراز’’خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے‘‘ یہ ایک الگ بات ہے کہ سیاست بھی اس وقت زوروں پر ہے اور ساری قوم کی نظریں اپوزیشن کے احتجاج پر لگی ہیں کہ وہ الیکشن کمیشن کے سامنے فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے احتجاج کر رہے ہیں۔ دیکھیے تھیلے سے بلی نکلتی ہے یا شیر لیکن ایک بات نہایت اہم ہے کہ خان صاحب نے رد عمل میں جو ایک بہت بڑا دعویٰ کر دیا ہے کہ دو بڑی جماعتوں کی فنڈنگ دو ملک کرتے رہے ہیں۔ اصل میں یہ بات وزیر اعظم کی زبان سے نکلی ہے تو اسے پھینکا نہیں جا سکتا۔ اب انہیں اس الزام کو ثابت بھی کرنا ہو گا اور اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان دونوں جماعتوں پر پابندی بھی لگ سکتی ہے۔ فی الحال تو پی ٹی آئی والے خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ پی ٹی آئی کو کارنر کرتے کرتے خود اپوزیشن والے پھنس گئے ہیں۔ میرے معزز قارئین کو نواز شریف کا وہ جھوٹ یاد ہو گا جو انہوں نے اسمبلی کے فلور پر جائیدادوں کے حوالے سے بولا تھا اور بعد ازاں اس جھوٹ کو سیاسی بیان کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی مگر وہ بیان ان کے گلے پڑ گیا۔ مریم نواز کا بیان بھی کہ ان کی تو پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں انکا کافی نقصان کر چکا۔ اس ضمن میں مجھے قمر کائرہ کی باتوں میں بہت ٹھہرائو اور وزن نظر آیا ۔ وہ بجا فرما رہے تھے کہ احتجاج کا مقصد صرف یہ ہے کہ فارن فنڈنگ کیس جو سات سال سے لٹکایا جا رہا ہے اس کو حق میں یا مخالف کچھ تو فیصلہ الیکشن کمیشن کو دینا چاہیے اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ خود اس کا فوری نوٹس لے سکتے ہیں۔ ان کی دلیل درست تھی کہ اگر یہ کیس کچھ بھی نہیں تھا تو بار بار اس کو روکا کیوں گیا۔ سات سال تک اسے سنا کیوں نہیں گیا جبکہ ان کی پارٹیوں پر کل کیس ہوا اور آج وہ لگ بھی گیا۔ اب پی ٹی آئی نے خرا بی بسیار کے بعد یہ تو تسلیم کر لیا ہے کہ فارن فنڈنگ ہوئی۔ بات بنیادی یہ ہے کہ یہ امتیاز ختم ہو گا تو حالات سدھریں گے۔ جون ایلیا نے کہا تھا: بولتے کیوں نہیں مرے حق میں ویسے اب تو بہت لوگ بولنے لگے ہیں بہت سی دستاویزات سامنے آ رہی ہیں، بہت سے راز افشاں ہو رہے ہیں۔ خان صاحب نے درست کہا کہ براڈ شیٹ سے مستفید ہونے والوں کو سامنے لایا جائے۔ اب ذرا حریم شاہ کی بات بھی ہو جائے۔ بعض اوقات ہم اسے ہنسی مذاق کی بات سمجھ کر صرف نظر کر جاتے ہیں مگر یہ ایشو بہت زیادہ سنجیدگی کا متقاشی ہے۔ سول میڈیا پر تو مزے لیے جا رہے ہیں کہ حریم شاہ کی ایک دوست عائشہ نے مفتی قوی کے منہ پر ایک تھپڑ جڑ دیا اور اس منظر کو خود حریم شاہ نے موبائل میں محفوظ کر کے وائرل کر دیا۔ کبھی وہ حریم شاہ سے گالیاں سن کر فخر کرتے ہیں: کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا ن لیگ والوں نے اس نگار خانی بات کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی ہے یا سیاست کی نظر سے اسے دیکھا ہے ن لیگ کے وزراء کہہ رہے ہیں کہ طلال چودھری کے معاملے میں اچھل کر آوازے کسنے والیاب مفتی قوی تنظیم سازی پر بھی تو بات کریں۔ آپ کے ذہن میں رہے کہ اتفاق سے مفتی قوی کے ذمہ بھی پی ٹی آئی ہی کی کوئی ایسی ذمہ داری تھی۔ اور شاید حریم شاہ بھی تو ایک اعلیٰ دفتر میں پہنچ گئی تھی اور وہاں وہ ٹک ٹاک بناتی رہی۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایسی عورتیں اتنی بالا جگہ کیسے پہینچ گئیں۔ مفتی قوی فرما رہے ہیں کہ وہ تو تبلیغ کرنے گئے تھے۔ ایسے معاملات کا نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا کہ ایک شخص بدنام جو ہونگے تو بھی کیا نام نہ ہو گا، والے کلیے پر عمل پیرا ہے مگر علمائے دین اور دین کے بارے میں عام آدمی بات کرتا ہے۔ اس سے پہلے ان پر قندیل کیس چلا۔ غالب یہاں بھی یاد آ گیا: دھول دھپہ اس سراپا ناز کا شیوہ نہ تھا ہم ہی کر بیٹھے تھے غالبؔ پیش دستی ایک دن آخر میں ایک اور موضوع پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ وہ ہے کھیل پب جی PUBG۔اس کا بھوت آج کل بچوں پر سوار ہے۔ دوسروں کی بات تو میں بعد میں کروں گا پہلے اپنے فرزند کی بات کرتا ہوں۔ میرا سب سے چھوٹا بیٹا عزیر بن سعد آٹھویں میں ہے۔ میں نے اسے انگریزی میں اپنے پسندیدہ کھیل پر مضمون لکھنے کو کہا۔ اس نے فوراً پب جی پر مضمون لکھا۔ آپ یقین مانیے مجھے پہلی مرتبہ اس کھیل کی پیچیدگیوں کے حوالے سے آگاہی ہوئی۔ میں حیران رہ گیا کہ یہ مشکل کھیل بچوں کو اس قدر پسند ہے کہ وہ اسے کھیلتے وقت اونچی اونچی آواز میں ایک دوسرے سے ہمکلام ہوتے ہیں۔ یہ کرو اور وہ کرو، یہ مر گیا اور وہ مر گیا۔ یہ اتنی دلچسپ کھیل ہے کہ بچے دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو کر اس کھیل میں مست ہوتے ہیں۔ پھر یہ کھیل آپ کہیں سے بھی بند اور کہیں سے بھی شروع کر سکتے ہیں۔ بچے ذہنی طور پر ہر وقت اس میں محو رہتے ہیں۔ اس میں تھرل ہے، مہم جوئی ہے اور تشدد ہے۔ اسلحہ کا استعمال۔ وہ ناخوشگوار واقعہ تو آپ کو معلوم ہے کہ اس کھیل پب جی کے نتیجہ میں ایک نوجوان احسن نے گھر میں بہن بھائیوں پر فائرنگ کر دی۔ چھوٹے بھائی نے بھاگ کر جان بچائی۔ بڑا بھائی اور بہن مارے گئے۔ ان کی ماں بھی زخمی ہوئی۔ یہ دل دہلا دینے والا واقعہ والدین کے سوچنے کے لیے کافی۔ اس سے بیشتر کچھ بچے اس کھیل کے باعث خود کشیاں بھی کر چکے ہیں۔ سائیکٹرسٹ کہتے ہیں کہ اس کھیل سے پہلے سے ذہنی طور پر متاثرہ بچے زیادہ ہی متاثر ہو جاتے ہیں۔ یہ کھیل ذہن کو مائوف بھی کر سکتی ہے۔ واقعتاً یہ بہت ہی فکر کی بات ہے کہ ہم بچوں کو لاڈ پیار میں کچھ نہیں کہتے۔ انہیں فری ہینڈ دے دیتے ہیں پھر وہ آپ کے ہاتھ میں نہیں رہتے۔ میں نے خاص طور پر نوٹ کیا ہے کہ بچے اس میں گینگ بن کر کھیلتے ہیں۔ دوسری طرف بچے کا ذہن اپنی تعلیم کی طرف نہیں رہتا۔ آج کل تو ویسے بھی بچے فارغ ہیں۔ بچوں کو اقبالؔ کے پیغام کی طرف لایا جائے: محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں یہ جو ڈالتے ہیں کمند