وطن عزیز میں جتنے شوق لوگ پالتے ہیں، ان میں مہنگا ترین شوق سیاست کا ہے۔ غریب غربا تو رہے ایک طرف متوسط اور اعلیٰ متوسط طبقے کے باصلاحیت افراد بھی اس شوق کے متحمل نہیں ہو پاتے۔ الاّ یہ کہ وہ اپنی صلاحیت کوپارٹی لیڈر کے پاس رہن رکھوادیں اور اس کے عوض پارٹی لیڈر ان کے گھرانے کے لیے دال دلیے کا مستقل بندوبست کردے۔ کچھ کا خیال ہے کہ سیاست شوق نہیں، ایک کاروبار ہے۔ ایک ایسا کاروبار جس میں سرمایہ کاری کرنی پڑتی ہے، ریٹرن بعد میں اسی لحاظ سے مل جاتا ہے۔ وہ زمانہ لد گیا جب سیاست ان کے مشن کا نام تھا اور اس کوچے میں دخل دینے کے لیے قوم کا غم خوار ہونا ہی کافی سمجھا جاتا تھا لیکن بقول اکبرالٰہ آبادی تب بھی رنج لیڈر کو بہت تھا مگر آرام کے ساتھ۔ وہ جمہوری سیاست کے آغاز کا زمانہ تھا اور مولانا حسرت موہانی جیسے گوہر نایاب لیڈر اس کوچے میں برہنہ پا اکا دکا مل جاتے تھے جن کا کل سرمایہ ایک لوٹا، ایک بستر اور ایک صراحی ہوتی تھی جسے اٹھا کر وہ چل پڑتے تھے۔ دور دراز کا سفر درپیش ہوتا تھا تو ریل گاڑی کے تھرڈ کلاس کے ڈبے میں گزارہ ہو جاتا تھا۔ اس درویشی کے عوض مولانا کو جرأت حق گوئی کی نعمت میسر آئی تھی اور اس کا نتیجہ جیل میں چکی کی مشقت اٹھانے کی صورت میں نکلتا تھا۔ آج کا لیڈر جیل جاتا ہے تو بعض صورتوں، اللہ جھوٹ نہ بلوائے ، شراب و شباب کی سہولتیں بھی میسر آتی ہیں اگر صوبے میں اپنی ہی پارٹی کی حکومت ہو تو۔ وطن عزیز میں جب سیاست اور بدعنوانی لازم و ملزوم ہو گئے تو اصلاح کی فکر کے تحت نیب جیسے احتسابی ادارے نے کام شروع کیا۔ ابتدا میں اس کی احتسابی سرگرمیاں بھی کچھ ایسی رہیں کہ کسی نے کروڑوں کمائے ہیں تو لاکھوں اور کسی نے اربوں کی لوٹ مار کی ہے تو کروڑوں ادا کرکے چھوٹ جائے، پھر جہاں سینگ سمائے چلا جائے۔ معاملات اب بھی نیب کے ایسے نہیں کہ جس سے یہ امکان ظاہر ہو کہ سیاست بدعنوانی سے پاک صاف ہو جائے گی۔ معاملات سیاست کو شفاف رکھنے کے لیے الیکشن کمیشن نے بھی سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے اثاثے طلب کرنے اور ان سے عوام کو آگاہ کرنے کا سلسلہ عرصہ ہائے دراز سے شروع کر رکھا ہے۔ اثاثوں کی یہ تفصیلات کمیشن اپنے ذرائع سے جمع نہیں کرتا۔ جنہوں نے کمایا اور بنایا ہے وہی سیاست دان انکشاف کرتے ہیں کہ ان کے پاس جمع جتھا کیا ہے؟ چنانچہ آج کے اخبار میں سیاستدانوں کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے اثاثوں کی تفصیلات الیکشن کمیشن نے بتائی ہیں جس کے مطابق ملک کی امیر ترین سیاسی جماعت مسلم لیگ ن ہے جس کے اثاثوں کی مالیت بائیس کروڑ اکیس لاکھ سے زیادہ ہے۔ دوسرے نمبر پر پیپلزپارٹی جس کے اثاثے سولہ کروڑ باون لاکھ سے زائد ہیں،تیسرے نمبر پر تحریک انصاف کہ اس کے پاس گیارہ کروڑ چونسٹھ لاکھ کے اثاثے ہیں۔ چوتھے نمبر پر جماعت اسلامی گیارہ کروڑ چھ لاکھ روپے سے زائد کے اثاثے ہیں۔ بقیہ پارٹیوں کے اثاثوں کی تفصیل اس لیے غیر ضروری ہے کہ ان کے اثاثے ناقابل تذکرہ ہیں۔ ملک میں حقیقی معنوں میں اس وقت یہی تین پارٹیاں ہیں جن کے اثاثے بالترتیب دوسروں سے زیادہ ہیں۔ رہی بات جماعت اسلامی کی تو اس کے اثاثوں سے یوں لگتا ہے کہ جماعت نے پچھلے ستر برسوں میں ووٹروں سے زیادہ اثاثے ہی بنائے ہیں اور یہ اثاثے نہیں کہا جاسکتا کہ قربانی کی کھالوں سے بنائے گئے ہیں یا اپنے ہمدردوں کی مالی امداد سے۔ اس لیے کہ غالباً یہ واحد جماعت ہے جس پر اور بہت سے اعتراضات کئے جا سکتے ہیں لیکن بدعنوانی کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ جماعت والوں کی ایمان داری کی ایک وجہ تو یہی رہی ہو گی کہ انہیں بے ایمانی آتی نہیں اور پھر یہ بھی کہ اس کاانہیں موقع کبھی مل بھی نہ سکا۔ مذکورہ تین جماعتوں میں زیادہ عرصے تک حکومت میں رہنے کا موقع مسلم لیگ ن کو ملا لہٰذا اصولاً اور اخلاقاً اس کے اثاثے زیادہ ہونے ہی چاہیے تھے۔ پیپلزپارٹی کے کرتا دھرتا نے جو کچھ کیا کرایا اس کے قصے زیادہ تر سینہ گزٹ ہیں۔ سرے محل اور سوئس بینکوں میں جو کچھ جمع کرایا گیا ہے، اس کی کہانیاں ہی کہانیاں ہیں اور کہانیوں میں کچھ سچ اور کچھ گپ ہوتا ہے۔ کتنا سچ اور کتنا گپ اس بارے میں صرف قیاس آرائی ہی کی جا سکتی ہے۔ تحریک انصاف نسبتاً نئی پارٹی ہے لیکن اس کے پاس پارٹی فنڈنگ کرنے والے ارب اور کھرب پتیوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔ ہمیں تو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ خود وزیراعظم عمران خان کے اثاثوں کی مالیت تین کروڑ چھیاسی لاکھ سے زائد ہے۔ خان صاحب کی شہرت راست بازی کی ہے اور ان کی دیانت داری ہر شک و شبے سے بالاتر ہے۔ اس لیے ان کے اثاثوں پر اظہار حیرت کے سوا کوئی تبصرہ نہیں کیا جاسکتا۔ مسلم لیگ ن کے مشاہد اللہ خان کے اثاثے بھی تین کروڑ کے ہیں۔ غالباً یہ اثاثے ان کے والد کے چھوڑے ہوئے راولپنڈی والے مکان ہی کے ہوں گے ورنہ ان کی کوئی ملازمت یا کاروبار تو ہے نہیں۔ فواد چودھری ان کی بابت یہ غلط اطلاع دیتے رہے کہ انہوں نے پی آئی اے میں ایک لوڈر کی حیثیت سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ وہ جن دنوں پی آئی اے میں پیاسی کے لیڈر تھے اس وقت تک فواد چودھری نے کوچہ سیاست میں قدم رنجہ بھی نہیں فرمایا تھا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے سیاست دانوں اورسیاسی جماعتوں کے اثاثوں کے اعلان کی غرض و غایت سمجھنے سے ہم قاصر ہیں۔ اگر اس کا مقصد یہ سراغ لگانا ہے کہ اگلے انتخابات تک ان اثاثوں میں کتنا اضافہ ہوتا ہے تو پھر یہ بات صاف ہونی چاہیے کہ اگلے انتخابات کے بعد بھی اپنے اثاثے تو ان ہی حضرات اور ان ہی جماعتوں کو بتانے ہیں جتنے چاہیں بتا دیں۔ الیکشن کمیشن اس کا بھلا کہاں اہتمام کرتا پھرتا کہ ظاہر کئے گئے اثاثوں میں سچ اور جھوٹ کتنا ہے۔ ذرا اس کا بھی تو پتہ چلایا جائے تو اثاثوں کے اعلانات محض بھرتی کے ہیں تاکہ عوام کو اطمینان ہو جائے کہ الیکشن کمیشن بدعنوانی کی روک تھام کے لیے سیاست دانوں کے مالی معاملات کی کھوج خبر بھی رکھتی ہے۔ جب بدعنوانی ایک سیلاب بلاخیز کی طرح معاشرے میں در آئے اور زندگی کے تمام شعبوں میں اس کا راج ہو جائے۔ یہاں تک کہ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر حضرات بھی اس کی لپیٹ میں آ جائیں تو پھر سیاست دانوں سے کیا شکوہ۔ سیاست تو ہے ہی طاقت اور دولت کے کھیل کا نام۔ جب اعلیٰ تعلیمی اداروں کے سربراہان پر بدعنوانی اور اختیارات کے غلط استعمال کا الزام لگنے لگے اور انہیں ہتھکڑیاں بھی لگنے لگیں تو پھر فاتحہ پڑھ لینی چاہیے اور کسی ایسے قانون کے اجرا کی فکر کرنی چاہیے جس سے بدعنوانی کو بھی قانونی شکل دی جا سکے تاکہ تعلیمی اداروں کے تقدس کو داغدار ہونے سے بچایا جا سکے۔