جب کوئی کینسر میں مبتلا ہو تو اس کے لئے اس مہلک بیماری سے لڑنے سے زیادہ اور کسی بھی چیز کی اہمیت نہیں ہوتی۔ کینسر کا مرض انسان کی زندگی بدل دیتا ہے۔عمران خان نے 1994ء میں شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اورریسرچ سینٹر قائم کیا تھا۔آج لاہور اور پشاور میں قائم اس ادارے کے دونوں ہسپتالوں میں 75فی صد مریضوں کے علاج میں مالی معاونت ہسپتال کی طرف سے ہی کی جاتی ہے۔ایک بیٹے کی طرف سے اپنی ماں کے لئے اس سے بڑھ کر ایک نذرانہء عقیدت اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ ایسے ہسپتالوں کو اس سے منسوب کر کے اس کے نام کو امر کر دے؟ عمران خان کی والدہ کینسر کا شکار ہو کر فوت ہوئی تھیں۔ دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو نواز شریف نے کبھی صحت کے شعبے میں ایسے کسی جامع منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی زحمت نہیں کی جس سے اس ملک کے طبقہ غرباء کے مریضوں کا بھلا ہو سکتا ہے۔آج میاں صاحب کی اہلیہ اپنے گھر اور گھروالوں سے دور لندن کے ایک ہسپتال میں کینسر کے مرض سے لڑ رہی ہیں۔ انتخابات جیتنے کی امید میں میاں صاحب اور مریم نواز شریف نے بھی کلثوم نواز شریف کے پاس رہنے کی بجائے لاہور آنے کو ترجیح دی تھی۔سیاستدانوں میں دل، روح اور ضمیر جیسی چیزیں ہوتی ہی نہیں ہیں۔ ان لوگوں کو صرف اپنی ذات کی پروا ہوتی ہے۔ہمیں کسی ایک سیاستدان کا نام بتا دیں جو عوامی بہبود کے کاموں میں عمران خان کے ریکارڈ کی برابری کر سکتا ہو۔ کوئی ایک ایسا بڑا سیاستدان ہمیں دکھا دیں جو غریبوں کی امداد کرتا ہو، جو مہربان ہو، انسانی ہمدردی رکھتا ہو، لوگوں کی پروا کرتا ہو،بڑے دل کا مالک ہو،کھلے ہاتھ سے غریبوں پہ خرچ کرتا ہو اورلبرل سوچ رکھتا ہو ؟ کوئی ایک ایسا سیاستدان ہمیں دکھا دیں جو اس قدر نرم دل ہو اور ذاتی اغراض سے پاک ہو۔ انسان دوستی کی یہ تمام علامتیں اگر آپ نے زرداریوں، شریفوں اور بھٹوئوں میں یا انہی جیسے سیاستدانوں میں ڈھونڈنے کی کوشش بھی کی تو آپ کا سر چکراجائے گا۔واحد عمران خان ہی کی ذات میں ہمارے پاس ایک مثال موجود ہے۔ انہوں نے کینسر کے مریضوں اور خاص طور پر غریب مریضوں کی مدد کا عزم کیا اور اپنے اس عزم کو پورا کر دکھایا۔اسی کارنامے کی بدولت وہ اپنے ہم وطنوں میں سے بیشتر کے دل جیت چکے ہیں۔آئیں ذرا ایک نظر ان حالیہ انتخابات میں ہارنے والوں پہ ڈالتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ معلوم کر یں کہ ان میں سے کون ایسا ہے جس نے اپنے لوگوں کے لیے کچھ اچھا کام کیا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جب پہلی بار وزیر اعظم بنیں تو ان کے شوہر آصف علی زرداری نے مسٹر ٹین پرسنٹ کے خطاب کے ساتھ اپنی کرپشن کا آغاز کیا۔ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کی دوسری میعاد میں زرداری صاحب ترقی پا کر مسٹر ٹوینٹی پرسنٹ کہلائے اور پھر جب وہ خود صدر بنے تو انہیں مسٹر سینٹ پرسینٹ کا خطاب مل گیا۔نہایت شرم کا مقام ہے۔ پھر یہ بھی دیکھیں کہ صرف زرداری صاحب ہی نہیں بلکہ ان کی دو بہنیں بھی، جو بے نظیر بھٹو کی زندگی میں محض گھریلو خواتین تھیں ،راتوں رات سیاستدان بن گئیں اور انہوں نے بھی کرپشن شروع کی جس کے ثبوت بھی موجود ہیں۔اسی لئے اگر بلاول مالاکنڈ ، لیاری اور کراچی کی نشستوں سے ہارے ہیں تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔ان کا گھرانہ قوم کو صرف لوٹتا رہا ہے، قوم کو دیا انہوں نے کچھ بھی نہیں۔لوگ کیوں بلاول کو ووٹ دیں گے؟ لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے لئے آخر انہوں نے کیا کیا ہے؟ذرا سوچئے اس نکتے پہ! میاں صاحب نے سیاست میں قدم رکھتے ہی اور پنجاب میں اقتدار پانے کے بعد سے اس قوم کو لوٹنا شروع کیا ہے۔ان کاگھرانہ ایک قلیل مدت میں ارب پتی بن بیٹھا اور اپنے لئے انہوں نے رائے ونڈ میں ایک عظیم الشان محل بھی تعمیر کروالیا۔اسی علاقے میں کہیں ان کا دعویٰ ہے کہ عوام کے لئے انہوں نے ایک ہسپتال بھی بنا رکھا ہے لیکن کون جانے یہ کہاں ہے؟شریفوں کا اثاثہ اور نجانے اور بھی کیا کچھ ان کے بیرون ملک محلات میں چھپایا گیاہے، پاکستان میں نہیں ہے۔رائے ونڈ کا محل محض نمائش کے لئے پاکستان میں بنایا گیا ہے تاکہ لوگوں کو یہ بتایا جا سکے کہ ہماری جڑیں پاکستان میں ہیں۔حالانکہ یہ سچ نہیں۔شریفوں کو بڑے بڑے محلات پسند ہیں لیکن پاکستان میں نہیں بلکہ لندن میں جہاںان کے تینوں بچوں کے نام پہ لمبی چوڑی جائیدادیں موجود ہیں۔ نواز شریف نے اس ملک کے غریبوں کے لئے آخر کیا کیا ہے؟سوائے موٹر ویز اور لال بسوں کے؟ اور وہ بھی صرف اس لئے تاکہ ان منصوبوں سے ان کے گھرانے کو خطیر کک بیکس اور کمیشن میسر آ سکے۔اسلام آباد کی جناح ایونیو پہ رات کے وقت آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ لال بسیں خالی چل رہی ہوتی ہیں۔ ملک میں بجلی کی قلت کے باوجودان لال بسوں کے سٹاپس کے بڑے بڑے خالی ہالوں میںساری روشنیاں جل رہی ہوتی ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو بھی ان کے حلقے کے لوگوں نے اس بار مسترد کر کے ان کے مخالف کو چنا ہے۔انہیں گھر بٹھانے کا وقت بہر حال آ چکا تھا۔پچھلے کئی برسوں سے ہم ان کی چالیں دیکھتے آئے ہیں۔مولانا صاحب نے پاکستان کے لئے آخر کیا کیا ہے؟ سوائے فساد پھیلانے اور دورنگی دکھانے کے؟ مولانا صاحب، اب آپ گھر بیٹھ کر خداتعالیٰ سے معافی مانگیں۔ جماعت اسلامی کے سربراہ سینٹر سراج الحق کو بھی ان کے علاقے لوئر دیر کے لوگوں نے مسترد کر دیا ہے ۔ تاہم سب سے بڑی ہار شہباز شریف کی رہی ہے۔ لاہور کی تزئین و آرائش کے لئے موصوف نے بڑا ہی کام کیا تھا۔لاہوریوں نے تو انہیں ووٹ دے کر کامیاب کرادیا ہے لیکن باقی تین حلقوں سے وہ ہار گئے ہیں۔اگر شہباز شریف کے بھائی کرپشن کے الزام میںزیر حراست ہیں تو کیا خود انہیں کرپشن سے پاک سمجھا جاسکتا ہے؟ہمیں ایک بہت ہی معتبر ذریعے نے بتایا ہے کہ جب شہباز شریف وزیر اعلیٰ تھے اور ان کا خاندان اپنی ملوں کے لئے سٹیل در آمد کیا کرتا تھا تو کسٹم ڈیوٹیوں سے بچنے کے لئے یہ لوگ سٹیل کو سکریپ میٹریل ٹھہراتے تھے۔یعنی قومی خزانے کو نقصان پہنچا کر ان لوگوں نے اپنی جیبیں بھری ہیں۔یہ ٹھیک ہے کہ انہوں نے مال روڈ پہ بڑے خوبصورت پودے لگوائے ہیں اور لاہور کو ایک مثالی شہر بنانے کے لئے بڑا کام کیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب کرتے ہوئے انہوں نے خود کتنی دولت کمائی ہے؟ بدقسمتی سے ان کے بیٹے حمزہ شہباز نے ایک نشست جیت لی ہے اور وہ یوں اتراتے پھرتے ہیں جیسے کوئی ولی عہد ہوں اور قانون سے بالاہوں، جہاں چاہیں اپنی گاڑی وہ پارک کر سکتے ہیں اور ان کی بہن اور بہنوئی بھی کسی دکاندار کو بے عزت کر کے اس کے ساتھ مار پیٹ بھی کر سکتے ہیں جو ان کے تقاضوں کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دے۔اے این پی کے لیڈر اسفندیار ولی بھی ہار گئے ہیں جو اچھی بات ہے۔اس ملک کے لئے ان کی خدمات کیا ہیں؟ان کے گھرانے کی وطن کے ساتھ وفاداریاں ہمیشہ مشکوک رہی ہیں۔ان کے آبا و اجداد پاکستان سے زیادہ بھارت کی طرف جھکائو ظاہر کرتے رہے ہیں۔ خود اسفندیار ولی کی زندگی کو جب بھی خطرہ ہوتا ہے تو وہ باہر فرار ہو جاتے ہیں۔ چارسدہ میں اپنے لوگوں کے درمیان رہنے کی بجائے وہ لندن کے عیش و آرام میں زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ چودھری نثار علی خان، شاہد خاقان عباسی اور محمود خان اچکزئی بھی سیاست سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گئے ہیں۔ان سب میں سے کوئی ایک بھی کام کا نہیں، خاص طور پر عباسی صاحب تو بالکل بھی نہیں!