ہماری آنکھ میں برسات چھوڑ جاتا ہے یہ ہجر اپنی علامات چھوڑ جاتا ہے یہ دن کا ساتھ بھی بالکل تمہارے جیسا ہے کہ روز جاتے ہوئے رات چھوڑ جاتا ہے میرے معزز قارئین! میرا دل چاہا کہ کالم سے پہلے ذرا ہلکی پھلکی بات ہو جائے کہ حالات نے طبیعت پر گرانی بڑھا رکھی ہے۔ اصل میں ہمیشہ کی طرح فواد چودھری کے بیان نے مجھے تھوڑا سا گد گدایا اور مجھے بلاول کا بیان یاد آیا کہ جب بارش آتا ہے تو پانی آتا ہے اور زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے جس پر ہمارے وزیر اعظم صاحب نے بلاول کی خوب کٹ لگائی تھی کہ اس کے بیان پر بڑے بڑے سائنسدان حیران رہ گئے کہ بلاول نے بارش فینامنادریافت کر لیا۔ خان صاحب کو چاہیے کہ اب اپنے وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی تحقیق پر کوئی شگفتہ بیانی کریں۔ فواد صاحب فرماتے ہیں بارش ختم ہونے پر حالات معمول پر آئیں گے تو سب کچھ بھول جائے گا۔ سبحان اللہ! ویسے بلاول اور فواد دونوں کا جواب نہیں۔ فطرت کا اپنا ایک انداز ہے اور وقت مرہم ہے۔ ویسے بھولنے میں تو ہمارا کوئی ثانی نہیں مگر سوشل میڈیا کے ستم ظریف خان صاحب کو کچھ بھولنے نہیں دے رہے۔ مجھے پیارا دوست عدیم یاد آ جاتا ہے: اس نے ہنسی ہنسی میں محبت کی بات کی میں نے عدیم اس کو مکرنے نہیں دیا ایک بات بہر حال ہمارے سائنس دان فواد چودھری نے اچھی کہی کہ حالات سے سبق سیکھ کر پلاننگ کرنی چاہیے۔ اس بیان کے معنی یوں دوچند ہو جاتے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں نے حالات سے سبق سیکھنے کی بجائے عوام کو سبق سکھانا شروع کر دیا۔ سبق سے مجھے یاد آیا کہ ہر قاعدے اور کتاب کے پیچھے لکھا ہوتا تھا ’’سبق پھر پڑھ صداقت کا امانت کا شرافت کا، لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا‘‘۔ میں اب سوچتا ہوں کہ یہ شعر جسے ہم نے کبھی درخور اعتنا نہیں سمجھا تھا اور اسے ایک فارمیلٹی کے طور پر دیکھ کر نظر انداز کر جاتے تھے کتنا بڑا پیغام اور حقیقت پر مبنی نستخۂ مجرب ہے، مگر ہم ڈرتے تھے کہ ’’اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا‘‘۔ ویسے ہم اس بات سے یکسر بے خبر ہیں کہ فطرت اگرچہ دوست ہے مگر یہ سبق بھی سکھاتی ہے۔ میں اس کے پیچھے مخفی قدرت کی بات کر رہا ہوں۔ نالائق بچے مگر سبق سے بھاگتے ہیں۔ جو بھی ہے ہم سبق بھی بھول جاتے ہیں۔ نہیں بھولتے تو اپنے مطلب کی بات اور جہاں مطلب نہیں رہتا وہاں کوئی یاد بھی نہیں رہتا۔ فراز یاد آ گئے: یونہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں اب کچھ تلخ نوائی ہو جائے کہ لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے کہ اسرائیلی طیارہ سعودی فضائوں سے گزر کر امارات پہنچ گیا۔ جس پر امریکہ کی شکرگزاری اور فلسطین والوں کی آہ و زاری دونوں عین فطری ہے۔ ہائے ہائے سچ مچ جو اس ملت کو راکھ کا ڈھیر کیا گیا تھا کتنا بڑا سچ تھا کہ اب یہ راکھ اڑتی ہوئی صرف نظر نہیں آ رہی بلکہ مسلمان حکمرانوں کے سروں پر پڑتی نظر آ رہی ہے۔ پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من امارات نے قانون منسوخ کر کے اسرائیلی مصنوعات کی اجازت دے دی اور اسرائیلی وفد سے بہت جلد باقی معاہدہ بھی طے ہو جائے گا۔ سب کچھ پہلے ہی طے ہے بلکہ یوں کہیں کہ اسرائیل نے ان غلام حکمرانوں کو مکمل طے کر کے رکھ دیا ہے کہ یہ طے تہہ جیسا ہیں کہ جیسے کپڑے کو استری کر کے تہہ کر دیا جاتا ہے۔ یہ تہہ در تہہ رسوائی، مگر اس سے کیا ہوتا ہے۔ یہ وہی بات ہے کہ جب غیرت اور حمیت کی بات کرنے والوں کو کچھ لبرل غیرت بریگیڈ کہہ کر مذاق اڑاتے تھے۔ واقعتاً اب تو امارات والوں کی خود سپردگی سے تو یہی لگتا ہے۔ قطر نے بڑی کوشش کی ہے جس پر قطر کی تعریفیں ہو رہی ہیں۔ گویا سرنڈر کرنے کے لیے واقعی دل گردا چاہیے۔ یہ تو ابھی ٹریلر ہے۔ امریکہ کی بات سمجھ میں آ رہی ہے کہ عنقریب سب اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں گے۔ مجھے تو ڈر لگ رہا ہے کہ یو ٹرن لینے میں دیر کتنی لگتی ہے!شعر اچھی طرح یاد نہیں آ رہا چلیے گزارہ کرتے ہیں: یہاں یہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسے پھر گیا جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا جناب! جب پسپائی شروع ہوتی ہے تو پھر اس کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ کوئی رعایت نہیں کرتا ایک دن وہ دیوار سے لگا ہی دیتا ہے اور پھر وہی دیوار گریہ ہی ثابت ہوتی ہے۔ پریشان خاطری بڑھتی جا رہی ہے کہ نیو ورلڈ آرڈر اب کچھ کچھ کھلنے لگا ہے دوسری طرف شیرازہ بکھرتا نظر آ رہا ہے اب سمجھ میں آ رہا ہے کہ کربلا کا واقعہ کیسے پیش آیا تھا کہ حرص و ہوس جب آنکھوں پر رنگین شیطانی پٹی باندھتی ہے تو پھر کچھ نظر نہیں آتا۔ ہم دیکھتے نہیں کہ ہمیں کس جانب لایا جا رہا ہے۔ ہماری معیشت کو تباہ کر دیا گیا۔ تعلیم کے حوالے سے کیا حشر ہو چکا ہے۔ ویسے تو اپنی تباہی کے لیے ہم ہی کافی تھے اور آپ یقین جانیے کہ مجھے تو یہ طوفانی بارشیں بھی فطرت کا انتقام لگتی ہیں کہ ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی نے مل کر ہمارے محبوب شہر کراچی کو تباہ و برباد کیا ۔ خیر اس معاملے کو ابھی رہنے دیں۔ فی الحال یہ دیکھیں کہ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے اپنے اسلام فوبیہ کے زیر اثر مسلمانوں کے خلاف کیا کچھ نہیں کیا جا رہا۔ سویڈن اور ناروے کے واقعات یونہی نہیں۔ کشمیر کی صورت حال بھی آپ کے سامنے ہے کہ وہاں اسرائیل طرز پر بھارت پیش رفت کر رہا ہے۔ ایران نے بالکل درست کیا کہ چین کی طرف چلا گیا۔ اسی طرح ترکی، ہم ابھی گومگو کی حالت میں ہیں کہ کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسہ میرے آگے‘‘ اب تو کعبے کی طرف بھی گئے تو لگتا ہے کہ وہاں سے بھی وہی صنم نہ نکل آئے۔ آخر میں غلام محمد قاصر کے لازوال سلام سے دو تین اشعار! یزید نقشۂ جور و جفا بناتا ہے حسینؓ اس میں خط کربلا بناتا ہے یزید لکھتا ہے تاریکیوں کو خط دن بھر حسین شام سے پہلے دیا بناتا ہے یزید آج بھی بنتے ہیں لوگ کوشش سے حسینؓ خود نہیں بنتا خدا بناتا ہے