کیا ماضی کی معروف،مقبول اور باصلاحیت ٹی وی اسٹار روحی بانو زندہ ہیں ؟ پچھلے دنوں میڈیا میں اچانک یہ سوال اٹھا تو سب کو ہوش آیا کہ ان کے بارے میں تو واقعی ایک عرصے سے کوئی خبر ہی نہیں، میڈیا کی ٹیمیں ان کے گھر گلبرگ تک پہنچ گئیں، اس قیمتی علاقے میں روحی بانو کا گھر اجڑے ہوئے دیار کی مانند پایا گیا، ارد گرد کے لوگوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ انہوں نے بھی کئی مہینوں سے روحی کو نہیں دیکھا، بات اور آگے بڑھی تو قریب ہی رہنے والی روحی بانو کی بہن نے بیان جاری کیا کہ روحی بانو خیریت سے ہیں، اور ان کے پاس ہیں، سب نے ان کی بہن کی بات پر یقین کر لیا اور بات ختم ہوگئی، مجھے روحی کی بہن کے بیان پر اعتبار نہیں کیونکہ میں کئی سال پہلے روحی کی بہن اور بہنوئی سے مل چکا ہوں، پہلی ملاقات اس رات ہوئی تھی جب روحی کے اکلوتے نوجوان بیٹے کا پراسرار قتل ہوا تھا، یہ اطلاع ہمیں پولیس کی جانب سے ملی تھی ،میں روحی بانو کے گھر پہنچا تو وہاں مکمل سناٹا تھا، روحی بانو گھر میں ہونے کے باوجود نہ جواب دے رہی تھی نہ دروازے پر آ رہی تھیں، نفسیات میں ایم اے کرنے والی روحی بانو اس وقت نفسیاتی مریضہ بن چکی تھی، ایک سے زیادہ ناکام شادیوں اور گمنامی نے اسے توڑ کے رکھ دیا تھا، تھوڑی دیر بعد اس کی بہن اور بہنوئی بھی وہاں آ گئے،روحی کو پکارتے رہے، دروازہ کھٹکھٹاتے رہے لیکن روحی کی جانب سے کوئی رسپانس نہ ملا، اسی دوران روحی کے بہنوئی نے جو زیادہ پڑھا لکھا نہیں لگتا تھا اسے غلیظ گالیاں دینی شروع کردیں، پھر بھی کوئی جواب نہ آیا تو اس شخص نے پوری شدت سے چلاتے ہوئے کہنا شروع کیا ،، تمہارا بیٹا قتل ہو گیا ہے، تمہارا علی مر چکا ہے،ان دو جملوں کی تکرار نے روحی بانو کو کمرے سے نکل کر لان میں آنے پر مجبور کر دیا، اس نے دروازہ پھر بھی نہیں کھولا تھا، وہ اپنے بیٹے کے قتل کی اطلاع پر کہہ رہی تھی، تم جھوٹ بول رہے ہو، میرا علی باہر دوستوں کے پاس گیا ہے اور ابھی واپس آ جائے گا، یہ مناظر دیکھ کر میں واپس چلا آیا تھا… اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد مجھے پتہ چلا کہ اسے بہن اور بہنوئی پاگل خانے میں چھوڑ آئے ہیں، میں ملنے فاؤنٹین ہاؤس گیا، مجھے وہ مکمل طور پر نارمل دکھائی دی، اس کا کہنا تھا کہ اسے اس کی بہن اور بہنوئی اس لئے یہاں چھوڑ گئے ہیں تاکہ وہ اس کے گھر پر قبضہ کر سکیں، میں اسے دو بار انتظامیہ کی اجازت سے پاگل خانے سے باہر لایا، اس کا میک اپ کروایا، اس کے لئے اچھے لباس کا انتظام کیا، دونوں بار اس کا انٹرویو کیا جو آج بھی لاکھوں لوگوں کو یاد ہو گا، یہ دونوں انٹر ویوز سوشل میڈیا پر آج بھی دستیاب ہیں، روحی بانو اتنی زیادہ نارمل تھی کہ مجھ سے پوچھا، تم انہی نعیم ہاشمی صاحب کے بیٹے ہو ناں جو ملبوساتی فلموں میں بھی کام کرتے تھے اور بادشاہوں اور شہزادوں جیسا لباس پہنا کرتے تھے، ان انٹرویوز کو دیکھ کر ان دنوں کے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے مالی امداد کیلئے روحی بانو کو اپنے گھر بلوایا تھا، چوہدری صاحب کے فون پر میں بھی وہاں پہنچا، وہ روحی کو پانچ لاکھ کا چیک دینے لگے تو میں بول پڑا،،، اتنی رقم سے تو اس بے چاری کا گھر ہی مرمت ہو سکے گا، چوہدری پرویز الٰہی نے رقم دو گنا کردی، چند ماہ روحی پھر پاگل خانے میں تھی اور اس کا گھر بھی مرمت نہیں ہوا تھا…روحی بانو بھی انسانی حقوق کا ہی ایک ایشو ہے، وہ زندہ ہے یا مر چکی،زندہ ہے تو کس حال میں ہے؟ اس کی کھوج پنجاب حکومت کے ارباب اختیار کولگانا پڑے گی۔ ٭٭٭٭٭ اے شاہ شکارپوری 1947ء میں لاہور آنے سے قبل بمبئے کی کئی بڑی فلموں میں کام کر چکے تھے، بمبئی میں کئی فلموں کی ڈائریکشن دی، کہانیاں اور گیت لکھے، ان کی لکھی ہوئی ایک فلم حقیقت 1956ء میں ریلیز ہوئی تھی، وہ قیام پاکستان کے بعد لاہور میں بننے والی اردو پنجابی فلموں کے دوسرے بڑے کامیڈین تھے، دوسرے نمبر پر اس لئے کہ مقبولیت میں نمبر ون کامیڈین نذر تھے، پھر ظریف آیا تو اے شاہ تیسرے نمبر پر چلے گئے، انہوں نے کئی کامیاب فلموں کے ٹائٹل رول بھی کئے، جن میں. چاچا خوامخواہ، چغل خور اور مفت بر جیسی کامیاب فلمیں بھی شامل ہیں اے شاہ نے ہاشمی صاحب کی فلم جادوگر میں ہیرو کمال کے دوست کا کردار بھی خوب نبھایا تھا،60 ء اور70 ء کی دیائیوں میں اے شاہ کے سائز کی دو موٹی خواتین ،چن چن اور ٹن ٹن، بھی کامیڈی رول کیا کرتی تھیں اور اکثر ان کا جوڑ اے شاہ سے ہی پڑتا تھا، پھر وہ کامیڈینز کے باپ کے کرداروں میں نظر آنے لگے، پھر وقت پینترا بدلتا ہے تو رنگیلا، لہری اور منور ظریف جیسے کامیڈینز چھا گئے، اے شاہ سمن آباد این بلاک میں کرائے کے گھر میں رہا کرتے تھے، اپنی کوئی اولاد نرینہ نہ تھی، امانت نامی ایک بچے کو گود لیا ہوا تھا جو بدقسمتی سے پڑھ نہیں سکا تھا، فلموں میں کام ملنا بند ہوگیا تو اے شاہ نے سمن آباد والا گھر خالی کر دیا اور نیا مزنگ کی بھٹو اسٹریٹ میں دو چھوٹے کمروں کا مکان کرائے پر لے لیا، منہ بولے بیٹے امانت نے سمن آباد گول چکر کی نکڑ پر پتنگوں کی دکان کھول لی ، اے شاہ بھی صبح دس بجے کے قریب اس دکان پر آجاتے اور اسٹول پر بیٹھے اخبار پڑھتے رہتے، دو چار گاہک آجاتے تو وہ امانت سے پیسے لے کر سبزی، گوشت والے سے خریداری کرکے واپس گھر چلے جاتے، ڈور اور پتنگ کا کاروبار تو اچھا تھا مگر یہ ہوتا تھا سال میں دو تین مہینے،ہی، دو تین برس بعد اے شاہ نے بیمار رہنا شروع کر دیا، ان کے اعصاب جواب دینے لگے تھے، امانت کا کاروبار بھی مندے میں جانا شروع ہو گیا، آمدن کم ، دال روٹی کا خرچہ زیادہ، امانت نے آمدن بڑھانے کیلئے چوکیدار کی ملازمت بھی کر لی، میں ایک دن اے شاہ سے ملنے گیا تو دل بھر آیا، انہوں نے دوسروں کو پہچاننا بھی کم کر دیا تھا، عید الفطر کی آمد آمد تھی، میں مصطفی قریشی صاحب کے گھر بیٹھا تھا کہ اچانک ایک خیال میرے دماغ میں آیا۔ قریشی صاحب آج اے شاہ شکار پوری کے گھر چلتے ہیں، ان کی کچھ مالی امداد کی جائے، نہ صرف قریشی صاحب بلکہ ان کی اہلیہ روبینہ بھی جانے کو تیار ہو گئیں، ہم نیا مزنگ پہنچ گئے، اے شاہ کی اہلیہ نے دروازہ کھولا، ایک چار پائی کی گنجائش والے برآمدے کے سامنے چھوٹا سا کمرہ تھا۔ اے شاہ تہہ بند کے اوپر ململ کا کرتہ پہن رہے تھے، ہماری آمد کا انہوں نے کوئی نوٹس نہ لیا ، اے شاہ کی اہلیہ ہمارے پیچھے دہلیز پر کھڑی تھیں‘ ان کی آنکھیں نم تھیں ، اے شاہ نے اپنے بدن سے کرتہ اتارا ، اسے ایک کونے میں رکھا اور چند لمحوں بعد اسے پھر پہن لیا، کرتہ اتارنے اور پہننے کا یہ عمل وہ بار بار کر رہے تھے، قریشی صاحب نے سوالیہ انداز میں میری جانب دیکھا۔ میں نے انہیں بتایا… شاہ صاحب اس وقت کسی خیالی فلم کے سیٹ پر ہیں اور شوٹنگ سے پہلے فلم کا لباس تبدیل کر رہے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ آج میں آپ کو اس لئے ماضی میں لے گیا کیونکہ ہمارا حال دیکھنے والا ہے نہ تبصرہ کرنے والا ، پانچ ماہ پہلے تک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کو مطلوبہ انجام سے دوچار کر دیا گیا ہے۔ غالب امکان یہ تھا کہ کپتان ان دونوں پارٹیوں کی ٹاپ قیادت کو آؤٹ کریں گے لیکن یہ کیا ہوا؟ عمران خان نے تو ایک ہی بال پر ساری ٹیم ہی الٹا دی، بالفرض قیادت بد عنوان تھی تو ان پارٹیوں اور ان پارٹیوں کو ووٹ دینے والوں کا تو کوئی جرم نہ تھا۔ اعلی حکومتی عہدیدار نے چار دن پہلے سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کی بات کی اور چار دن بعد بیک وقت ایک سو بہتر افراد کے بیرون ملک جانے پر پابندی کو کوئی آسانی سے ہضم نہیں کرے گا، اس کی مثال خود پی ٹی آئی کے فیصل واوڈا کا رد عمل ہے، اب سندھ میں فیصلہ یہ ہونا ہے کہ وہاں گورنر راج نافذ ہونا ہے یا ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی کی حکومت بنانی ہے، سارے سین پرانی فلموں کے چل رہے ہیں، کراچی میں میں علی رضا عابدی کے ساتھ ایک دو اور بھی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوگئے، نیوز چینلز پر ٹریفک اہلکار کے ہاتھوں شہری پر سر عام تشدد بھی ہوتا رہا،، وہ سب کچھ جو نئی حکومت کے آنے سے پہلے ہوا کرتا تھا،، عرض اتنی ہے کہ اندرون سندھ کے لوگ بڑے بڑے دانشوروں سے زیادہ سیاسی شعور رکھتے ہیں۔