ایسے لوگ نیب کے مظالم بیان کر رہے ہیں جو ذاتی طور پر لوگوں پر تشدد اور ظلم کرنے میں معروف ہیں۔ ان لوگوں نے اداروں کو تشدد پسند بنایا۔ پنجاب پولیس نے سابق حکمرانوں کے سیاسی مخالفین کو کس طرح خاموش کرایا کیا یہ کہانیاں کسی کو یاد نہیں؟ آصف زرداری بھلے اس بات کو مفاہمتی سیاست کی نذر کر کے خاموش ہو جائیں مگر یہ تاریخ کا حصہ تو رہے گی کہ دوران قید ان کی زبان کاٹنے کی کوشش مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں تفتیشی افسران نے ہی کی تھی۔ کہانیاں تو اتفاق فائونڈری کی بھٹیوں‘ گوالمنڈی میں بدمعاش گروہوں کی سرپرستی اور پولیس کے کچھ جونیئر افسران کو بدمعاش بنا کر استعمال کرنے کی بھی ہیں۔ مسلم لیگ ن نے ہر ضلع کی قیادت ایسے گروہوں اور خاندانوں کو سونپی جو وہاں سرکاری زمینوں‘ وسائل اور اختیارات کو اپنے جیسے لوگوں میں بانٹ کر ایک جبر کا نظام تشکیل دیتے۔ یہی ان کی گورننس تھی۔ مسلم لیگ ن ایک تجربہ کار پارٹی ہے۔ اس کا ثبوت قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں اس کی خصوصی دلچسپی ہے۔ جب سے شہباز شریف نیب کی حراست میں ہیں مسلم لیگ جلد جلد اسمبلی کے اجلاس بلانے کی ریکوزیشن دے رہی ہے۔ ان اجلاسوں میں کوئی تعمیری کام نہیں ہو رہا۔ تجربہ کار اپوزیشن رہنما نیب حراست میں اپنی تفتیش کو اسمبلی ریکارڈ کا حصہ بناتے ہیں۔ پھر کوئی اپوزیشن ممبر حکومت کو اشتعال دلاتا ہے۔ حکومت کا کوئی وزیر طیش میں آ کر ان کے دانت کھٹے کرتا ہے اور پھر اجلاس ختم ہو جاتا ہے اپوزیشن لیڈر بننے کا یہ فائدہ تو ہے کہ نہ نیب کے کسی سوال کا معقول جواب دیا جائے اور نہ ایوان کی کارروائی کو آگے بڑھنے دیا جائے۔ پارلیمانی روایات کوئی الہامی اصول نہیں ہوتے۔ یہ ہر قوم کے شعور اور مہذب رویے ہیں جن کو اتفاق رائے سے محترم اور مقدس قرار دیا جاتا ہے۔ جن ممالک میں سچ اور جھوٹ کو سماجی سطح پر کسی شخصیت کی اہم خوبی یا کمزوری گردانا جاتا ہے وہاں جھوٹ بولنے والے کو کوئی اہم عہدہ اور ذمہ داری تفویض نہیں کئے جاتے۔ برطانوی وزیر اعظم ہو یا امریکی صدر وہ جھوٹ بولنے کا تصور تک نہیں کر سکتے۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ انہوں نے پارلیمنٹ میں جھوٹ بولا ہے یا اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعدکبھی غلط بیانی کی ہے تو انہیں استعفیٰ دینا پڑتا ہے۔ پاکستان میں ایسا نہیں۔ ہم بھی جمہوری ریاست ہیں‘ ہمارے ایوان بھی مقدس ہیں۔ ہمارے حکمران بھی خدا کو حاضر ناظر جان کر ریاست‘ آئین اور عوام سے وفادار رہنے کا حلف اٹھاتے ہیں پھر ہم پارلیمنٹ میں جھوٹ کیوں بولتے ہیں۔ ہم اپنے جرائم کو سیاسی انتقام کے شور شرابے میں کیوں فراموش کرنا چاہتے ہیں۔ نیب ہو یا پولیس خرابیاں ان میں موجود ہیں۔ کوئی اچھا اور دیانتدار سربراہ آتا ہے تو ان کی کارکردگی بہتر ہونے لگتی ہے۔ کوئی قمر الزماں چودھری آ جائے تو نیب مجرموں کا دوست بن جاتا ہے۔ نیب میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں ہوتی رہی ہیں۔ ہر طاقتور سیاسی خاندان کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار نیب میں ضرور ہو گا۔ ان لوگوں کو چند ہزار کی ملازمت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایک طاقت درکار ہوتی ہے جس سے یہ دوسرے لوگوں کو خوفزدہ کر سکیں۔ نیب میں سابق حکمرانوں کے وفادار کافی تعداد میں ہیں۔ یہ لوگ مقدمات سے متعلق خفیہ تفصیلات افشا کرتے ہیں۔ ان کی وجہ سے پراسیکیوشن کی کمزوریاں رہتی ہیں۔ مقدمات عدالتوں میں جاتے ہیں اور تفتیش کی کمزوریاں مجرموں کو بچانے میں مدد دیتی ہیں۔ ہم آئے روز سنتے ہیں کہ فلاں سابق وزیر‘ فلاں سیاسی رہنما اور فلاں افسر اربوں روپے کے غبن‘ فراڈ یا گھپلے میں ملوث نکلا۔ مگر ہر روز ملنے والی ان خبروں میں سے کتنی خبریں ہیں جن میں بتایا گیا ہو کہ ان لوگوں کو سزا ملی۔ ہم ڈاکو پرست معاشرے میں ڈھال دیے گئے ہیں۔ کیوں ڈھالے گئے یہ بھی جان لیں! لاہور کا ہمسایہ ایک ضلع ہے۔ یہاں ایک صاحب چوروں‘ رسہ گیروں کے سرپرست ہوا کرتے تھے۔ پھر ان کی آل اولاد پھیلی اور سارے ضلع کا اختیار‘ طاقت اور سیاست ان کے قدموں میں آ پڑی۔ لاہور سے ملتان کی طرف جائیں تو راستے میں ایک ضلع پڑتا ہے۔ انگریز دور میں یہاں ایک قبیلہ رہتا تھاجو رہزنی کرتا تھا۔ ان کے شر اور لوٹ مار سے کوئی محفوظ نہ تھا۔ انگریز نے انہیں پیشکش کی کہ اگر یہ لوگ سرکاری قافلوں کی حفاظت کریں تو انہیں جاگیریں‘ مالیہ اکٹھا کرنے کا اختیار اور چھ ماہ تک کسی کو بھی قید کرنے کا اختیار دیا جائے گا۔ لٹیروں کی لوٹ مار کو انگریز نے قانونی لوٹ مار بنا دیا۔ یہ خاندان اب بھی سیاست میں اہمیت رکھتا ہے۔ ہر وہ سیاست دان جو جاگیردار ہے۔ جس کے اجداد نواب‘ خان بہادر اور ’’سر‘‘ کہلاتے تھے۔وہ وطن کے غدار اور عوام کے دشمن تھے۔ ان کی اولادیں ابھی تک ہم پر مسلط ہیں۔ قانون شکنی اور لوٹ مار ان کے ڈی این اے کا حصہ ہے۔ یہ اب بھی سیاسی رہنما کے بجائے جرائم پیشہ گروہ کے سرغنہ کے انداز میں کام کرتے ہیں۔ یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ریاست ظالم ہے اور خود کو مظلوم بنا کر بھیڑ کی کھال پہن لیتے ہیں۔ ایوب خان نے ملک میں کاروباری طبقے کو مضبوط بنانے کا آغاز کیا۔ وہ تاجر خاندان جو سیاست سے دور رہے، ان کے لیے مشکلات آج بھی موجود ہیں جو تاثر سے صنعتکار اور پھر صنعتکار خاندان بنے وہ ایسے لوگ تھے جنہوں نے غیرقانونی حکمرانوں کوسہارا دیا اورانعام میں قرضے، لائسنس، پرمٹ اور ٹیکنالوجی کے ٹھیکے پائے۔ ان ہڈحراموں کے پاس کوئی کاروباری صلاحیت نہیں صرف چاپلوسی تھی۔ یہ موقع پرست جب چاہیں آمر کے ساتھی بن جاتے ہیں جب مفاد بدلے تو جمہوریت کے جھنڈے اٹھالیتے ہیں۔ انہوں نے تاجر اور صنعتکار طبقات کو دبا لیا ہے۔ یہ لوگ رسہ گیر نہیں وائٹ کالر کرائمز کے موجد ہیں۔ نیب میں جتنے مقدمات ہیں وہ سب انگریز کی باقیات جاگیرداروں اور وائٹ کالر کرائمز کرنے والے صنعتکار خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں طبقات طاقت، اختیار اور وسائل میں لٹنے والے عام پاکستانیوں سے طاقتور ہیں۔ پارلیمنٹ میں ان بااثر خاندانوں کے لوگ جب نیب پر تنقید کریں تو سمجھ لینا چاہیے کہ کچھ لٹیروں کی گردن شکنجے میں آ گئی ہے۔