پسند کا سوال، ڈھنگ کا جواب،تراشنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود ‘یہ سوال پوچھنے میں کوئی حرج نہیں‘ہماری سیاست کہاں کھڑی ہے؟ سیاسی ارسطو باہم دست و گریباں ہیں۔سیاست میں تشدد غالب ہے۔قیاس آرائیوں پر مبنی گفتگو‘الزام تراشیاں‘سیاسی مخالفین کو چت کرنے کی کوششیں ہیں۔اس سے جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔مولانا ابولکلام آزادؔ نے کہا تھا:نشہ کی تیزی میں کتنی ہی سخت چوٹ لگے‘قطعاً محسوس نہیں ہو تی۔اذیت کا احساس تب ہو گا،جب نشہ اترے گا۔ہمیشہ سیاستدانوں کی غلطیاں‘الزام تراشیاں‘دوسروں کے کاموں میں بے جا مداخلت۔ جمہوریت کے پٹڑی سے اترنے کا سبب بنا۔اَلَیسَ مِنکُم رَجُلُ الرَّشِید۔کوئی ایک بھی صاحب ِبصیرت نہیں۔ پی ڈی ایم میں شامل چھ جماعتیں۔حب ِعوام نہیں، بغض ِعمران میں یکجا ہیں۔ماضی میں یہی لوگ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے رہے۔البتہ مولانا کا مسئلہ الگ ہے۔چار سینیٹرز کے ساتھ ڈپٹی چیئرمین سینٹ۔آٹھ ایم این ایز کے ساتھ دو وزارتیں اور کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ۔ ان کی پارٹی کو تمام مذہبی جماعتوں میں ممتاز رکھتی تھی۔حالانکہ اقتدار کے پیچھے بھاگنا علما کا شیوہ نہیں۔ابن جوزیؒ بڑے محدث گزرے ہیں۔ دو ہزار کتب،ہاتھوں سے لکھیں۔جب وقت ِرخصت آ پہنچا‘وصیت کی :غسل کا پانی اس کترن اور برادہ سے گرم کیا جائے۔ جو حدیث لکھنے کے لئے قلم بنانے میں جمع ہوا تھا۔اس قدر ذخیرہ تھا ‘پانی نہ صرف گرم ہوا بلکہ برادہ بچ گیا۔آپؒ کے ہاتھ پر ایک لاکھ افراد نے توبہ،20 ہزار کافروں نے اسلام قبول کیا۔زمانہ حال کے علما کو جب اقتدار ملا،انھوں نے آمر مشرف کی مدد کی۔ جب افغان بستیوں کو راکھ بنایا جا رہا تھا۔تب خیبر پی کے میں ایم ایم اے کی حکومت،مولانا مرکز میں اپوزیشن لیڈر تھے۔افغانستان میں کتنی عفت شعار اور عصمت مآب بیٹیوں کی عصمتیں لٹیں۔لاکھوں نوجوان اعضاء سے محروم ہوئے۔سنیکٹروں کال کوٹھڑیوں کا رزق بنے۔ہزاروں کاروبار اور گھروں سے محروم ہوئے۔مگرصاحب ِجبہ و دستار17ویں ترمیم کی حمایت‘شہدا کی زمین الاٹ کرانے میں مگن تھے۔ہر قانون کی طرح یہاں بھی مستثنیات ہیں۔ اخص الخواص افراد کو عام سے الگ رکھنا پڑے گا۔ایسے لوگ فکر و نظر کے عام ترازو میں نہیں تولے جا سکتے۔ پی ڈی ایم میں شامل چند شخصیات سے صرف نظر کر لی جائے، تو خواص میں چند شخصیتیں خصوصیات کی حامل ہیں۔ مگر حالات کی سنگینی سے وہ بھی غافل ۔اقتدار کی چاہت ‘عہدوں کی ہوس‘بڑوں بڑوں کی آنکھوں میں پردے اور دلوں پر مہریں ثبت کر دیتی ہے۔ویڈیو اور آڈیو کے اصلی کردار‘جلد منظر عام پر آئیں گے۔قرائن یہ ہیں کہ باپ اور بیٹی کی قسمت پر مہر لگ چکی ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ وہ دھوپ میں رکھی برف کی طرح پگھل جائیں گے۔لاریب کتاب میں دن رات کی قسم کے ساتھ مختلف اوقات کی قسمیں موجود ہیں۔ان قسموں کا مقصد انسان کو وقت اور عمر عزیز کی گزرتی لہروں سے نفع اٹھانے کی جانب توجہ دلوائی گئی ہے۔فرمان رسولؐ ہے:نِعمتَانِ مغبون فِیھمَا کثیر منَ الناسِ: الصحتُہ وَ الفراغُ۔دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں کئی لوگ دھوکے کا شکار ہیں۔صحت دوسری فراغت۔پی ڈی ایم میں منتشر الخیال، مختلف المزاج اور الگ الگ نظریات کی حامل شخصیات کی صحت بھی ساتھ نہیں دے رہی۔الٹا فراغت دیمک کی طرح چاٹے جا رہی ہے۔صحت کی قدر بیماری میں ۔اقتدار کی، چھن جانے کے بعد ہوتی ہے۔35برس میں ان جماعتوں نے جس طرح عوام کا خون چوسا، 2018ء کے الیکشن اس کا ردعمل تھے۔مسلم لیگ (ن) آڈیو اور ویڈیو کی آڑ میں جو پیہم نفرتوں کی فصل بو رہی ہے۔وہ دیر تک اسے اقتدار سے محروم رکھنے کا سبب بنے گی۔انسان کا کردار اسے معاشرے میں زندہ رکھتا ہے۔ 19 سالہ جنگ میں طالبان فنا ہو کر پھر زندہ رہے۔ان کی واپسی ملا عمریا ملا منصور کی محتاج نہیں بنی۔ مصیبت میں رجوع الی اللہ ،استقامت اوراپنے کاز سے لگائو نے ان کے لئے زمین مسخر کر دی۔داڑھیوں اور پگڑیوں والے فاقہ مست بے یارومددگار تھے۔ انہیں انسانوں اور بھیڑ بکریوں سے بھی بدتر سمجھنے والے‘ سارا حساب سودِ مرکب کے ساتھ بے باق کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔چند روز قبل تک میاں نواز شریف تحریک عدم اعتماد کے لئے تیار تھے۔انہیں اقتدار پکے پھل کی طرح جھولی میں گرتا دکھائی دے رہا تھا۔ مگر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ہونے والی قانون سازی نے انہیں مایوس کر دیا ہے۔اپوزیشن لیڈر کے بائیکاٹ پر وہ شدید غصے میں تھے۔یہاں تک انہوں نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر پی ڈی ایم سے الگ لائحہ عمل تشکیل دینے کا حکم دیا۔مولانا فضل الرحمن بھی پی ڈی ایم سے مایوس ہو چکے ہیں۔استعفوں اور لانگ مارچ پر ہر جماعت کا الگ الگ موقف ہے۔مولانا کی ستائش اور نیاز مندی کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ان کی تجویز کے سامنے سر جھکایا جائے گا۔اس لئے ان کے قریبی حلقوں نے تصدیق کی ہے کہ وہ اب اس اتحاد کی سربراہی سے علیحدگی کا سوچ رہے ہیں۔اگر انہوںنے علیحدگی اختیار کر لی،تو اپوزیشن کا قصہ پاک۔(ن )لیگ میں بھی کئی سنجیدہ‘سلجھے ہوئے‘حالات کی سنگینی کا ادراک رکھنے والے ارکان آڈیو ویڈیو کی سیاست سے اکتا چکے ہیں۔شاہد خاقان عباسی‘وزیر اعظم بنائے جانے پر باپ بیٹی کے احسانوں تلے دبے ہوئے ہیں۔اس لیے اگلی صف میں کھڑا ہونا ان کی مجبوری ہے۔باقی بڑوں کے ساتھ بیٹھ کرسیاسی قد اونچا کرنے کی تگ و دو میں ہیں ۔ اپوزیشن کے پاس وقت کم مقابلہ سخت ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال سے جھرلو سسٹم کا خاتمہ۔نسل نو کارکردگی پر انتخاب کرے گی۔امام شافعیؔ ؒفرماتے ہیں: صوفیا کرام کی محبت سے دو باتوں کا علم ہوا۔اَلوَقتُ سِیفٌ اِقطَعُہ وَاِلَّا قَطعک۔وقت تلوار کی مانند ہے، آپ اس کو اچھے عمل میں کاٹیں ،ورنہ وہ حسرتوں میں مشغول کر کے آپ کو کاٹ ڈالے گا۔ حکومت بھی وقت کی دو دھاری تلوار سے بچنے کا جتن نہیں کر رہی۔اپوزیشن جماعتیں جام کمال کے بعد صادق سنجرانی پر وار کرنے کے لئے صف بندی میں مصروف ہیں۔ پیپلز پارٹی کی پرانی منشا ہے کہ گیلانی چیئرمین سینٹ بن جائیں،تاکہ زرداری صاحب اور ان کی ہمشیرہ کو کیسز میں ریلیف مل جائے۔البتہ دلاور خاں گروپ کے چھ سینیٹروں کا وزن ترازو کو جھکا دے گا۔حکومتی تکبر کا کوئی علاج نہیں، یہ کھلا پاگل پن ہے۔ اگر غفلت برتی گئی تو پھر شکست واضح۔لہٰذا حکومت کو ہوشمندی سے کام لینا چاہیے تاکہ منتشر اپوزیشن کو یکجا ہونے کا موقع نہ مل سکے۔