مجھ سا کوئی جہان میں نادان بھی نہ ہو کر کے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو کچھ بھی نہیں ہوں میں مگر اتنا ضرور ہے بن میرے شاید آپ کی پہچان بھی نہ ہو عشق میں شاید بے آبرو ہونا ہی آبرو مند ہونا ہے، اس میں ہارنا جیت سے افضل ہے بلکہ رل جانا تو موتی بن جانا ہے۔پھر اس میں دو چار ہی نہیں کئی سخت مقام آتے ہیں جگر نے حد ہی کر دی کہ کہا اک آگ کا دریا اور ڈوب کے جانا ہے مگر کیا کریں ہر بولہوس نے عاشقی پیشہ شعار کی۔ سمجھدار عاشق بھی تو ہوتے ہیں جو دریا کے اس پار رہتے ہیں اور ان کے ملنے والوں کو گھڑا ڈبو دیتا ہے وہ بے چارے گھڑے کو واسطے ڈالتے رہتے ہیں گھڑایا پار لگا دیں وے میں منتاں تیریاں کر دیں بہرحال سچے کارکن واقعتاً سچے عشق میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات یہ عشق اپنے آپ ہی سے ہو جاتا ہے کہ وہی جو فیض نے کہا تھا اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں۔ ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں۔ پھر عاشق لوگ سودائی ،یہ ایک قسم کا رومانس ہے اور انا بھی اور بعض جگہ یہ خود غرضی اور خود پرستی بھی۔ بات میں یہ کرنا چاہتا ہوں کہ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔ پی ٹی آئی والے بھی کپتان کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کو واپس لانا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ واپس نہیں لا سکتے اور اگر وہ بھی آئے تو ان کو رکھنا بھی ان کے بس میں نہیں ،دوسری طرف ن لیگ والے بھی کچھ شرارتی سے ہیں کہتے ہیں نواز شریف ضرور واپس آئیں گے پہلے میں وہ پی ٹی آئی والوں کا علاج کر لیں وہ یہ کہنا چاہتے ہیں نواز شریف کو واپس کوئی لے کر آئے گا یہ بات براہ راست کہنا کچھ اچھا نہیں لگتا پروین شاکر کے شعر میں تصرف کرتے ہیں: جب بھی لوٹا ہے وہ لوٹا ہے ضمانت لے کر بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی مگر یہ مصرع بھی اسی غزل کا ہے بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ فی الحال تو حکومتی طائفے حکمت عملیاں طے کر رہے ہیں کہ ان کے پاس مشیر ہی انگننت ہیں ۔اب ان سے کام بھی تو لینا ہے یہ ان کی شوریٰ یا تھنک ٹینک جن کے پاس دو کام ہیں ایک کام تو شاید ہو چکا کہ نواز شریف سے چھٹکارا کیسے پانا ہے۔ خیر گلو خلاصی تو ہو گئی تھی مگر وہ تو نو ماہ کے بعد الٹا گلے پڑ گئے اب دوسرا کام ذرا زیادہ مشکل ہے کہ اس بلا کو واپس لا کر بوتل میں بند کیسے کریں۔ بعض باتیں بڑی گہری ہوتی ہیں یا پھر یہ دل نکتہ آفرینی کرتا ہے کہ آپ عمران کو اتنا بھولا اور ناتجربہ کار نہ سمجھیں کہ اس سے ہر کام میں غلطی سرزد ہو جاتی ہے اس لئے اس کے اکثر یو ٹرنز کو بھی حکمت کا شاخسانہ کہہ دیا جاتا ہے۔ خان صاحب یہ جو اکثر یو ٹرن کو وی بنالیے لیتے ہیں وی سے مراد وکٹری ہے ایک تیر دو نشانے کہہ لیں کہ عمران خاں نے نواز شریف کو تقریر کی اجازت دی تو یہ کوئی جمہوریت سے محبت یا اعلیٰ ظرفی والی بات نہیں تھی۔ حالانکہ اس میں اڑچھن یہ بھی کہ بعد والے خطاب میں نواز شریف نے فوج کے جوانوں اور افسروں کو سلام پیش کیا جو سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں گویا اب خان صاحب نواز شریف کے منہ سے فوج کی تعریف سننے یا سلام بھیجنے کے روادار نہیں۔ بس یہی فیصلہ ہمارا ہے ہم تمہیں دشمنی میں رکھیں گے۔ بڑی ریاضت کے بعد حضور یہاں تک پہنچے ہیں: ایک لمحے کی مسافت ہی بہت ہوتی ہے ہم کو تو عمر لگی یار تک آتے آتے اب جوابی گولہ باری بھی تو شروع ہو چکی ہے کہ خان صاحب پر بھی تو مقدمات ہیں جب یہ اپنے سیاسی جڑواں بھائی کے ساتھ دھرنا دیے ہوئے تھے اور بعد میں جب مست قلندر ہوا تھا صرف یہی نہیں ہوا بلکہ انہیں امپائر کی انگلی کی بشارت ہوئی تھی۔ مقدموں میں تو فارن فنڈنگ بھی ہے۔ بہرحال وقت بدلتا رہتا ہے یہ مستی ایک دن رنگ تو لائے گی۔ کیس تو ہمیشہ بعد میں کھلتے ہیں جوانی کے نشے میں تو دردیں بھی لطف دیتی ہیں ایسے ہی اقتدار کے نشے میں چھوٹی موٹی غلطیاں تو آنکھ میں جچتی ہی نہیں مگر تاریخ بتاتی ہے کہ ایک معمولی سے کاٹی ہوئی ایف آئی آر بھٹو جیسے نابغے کو پھانسی پر چڑھا دیتی ہے۔ پھر قابل اجمیری کے بقول: وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا یہ بہت اچھی بات ہے کہ پاک فوج کی طرف سے مکمل خاموشی ہے اور یہ ایک اچھا جیسچر ہے اس حوالے سے اب معاملے کو ہوا دینا کوئی اچھی بات نہیں سوال تو کچھ اور جس کے جواب حکومت کو دینا ہے۔ آپ کی خوبی مان لی کہ فوج آپ کے ساتھ ہے اچھی بات ہے اپوزیشن بھی فارغ ہے کچھ جیلوں میں اور کچھ باہر۔ مریم بھی کب تک خیر منائے گی۔ کورونا بھی آپ کی فیس سیونگ کر گیا۔ہر آفت آپ کے حق میں گئی مگراب تک عوام کو آپ تگنی کا ناچ نچا رہے ہیں کسی بھی حوالے سے ملکی حالات اچھے نہیں ۔عوام کا حال تو کچھ نہ ہی پوچھیں۔ لوگ حکومتی دعوئوں اور وعدوں کا باقاعدہ مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کی بڑھکوں پر ہنستے ہیں۔ یہ جو سوشل میڈیا ہے کہ ایک آئینہ ہے جس میں آپ کا حال ہی نہیں ماضی بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ اس میں مکرنے کی آپشن سرے سے ہے ہی نہیں ۔بڑے بول بولنا اور بڑے بڑے ارادے باندھنا اور بات ہے جب عمل کا وقت آتا ہے تو تب کردار کھلتا ہے۔ وگرنہ یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نازی ہے۔ خدا کے خاکی سے یہاں مراد انسان ہے کہ خاک سے بنا ہے جسے خاک کا پتلا بھی کہتے ہیں میرا خیال ہے اسے خطا کا پتلا بھی کہتے ہیں۔ اس لئے ہمارے رہنما اپنے آپ کو انسان ثابت کرنے کے لئے خطا کرتے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومتی نمائندوں کی ڈیوٹی میں صرف نواز شریف اور مریم پر بیان بازی کرنا ہے۔ آپ پیشین گوئیاں کرتے رہیں کہ بیگم صفدر اداروں کے خلاف سازش کر رہی ہیں یا یہ کہ م لیگ ش لیگ کا بیڑہ غرق کرے گی۔ ایک ادھر بیان عوام کی جانب بھی ہو جائے کہ ان کے بیڑے میں پتھر کس نے ڈال رکھے ہیں۔ آخر میں میرؔکا ایک خوبصورت شعر: شمع خیمہ کوئی زنجیر نہیں ہم نفساں جس کو جانا ہے چلا جائے اجازت کیسی