اصول سمندر کنارے روشن اس لائٹ ہائوس کی طرح ساکن و جامد ہوتے ہیں جو ہر طرح کے حالات اور موسموں میں ملاح کوزمین کا پتہ دیتے ہیں اور یہی سب سے بڑا اصول ہے کہ کسی اصول کا اطلاق ہر کس و ناکس پر یکساں ہوگا اور اسی اصول کا نام انصاف ہے ورنہ سوچئے اگر لائٹ ہائوس مدوجزر اور پرسکون حالات میں اپنی پوزیشن بدلتا رہے تو یہ روشن مینارہ کہاں تک سمندری جہازوں کو رہنمائی فراہم کر سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول پاکؐ سے جب ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھنے والی خاتون چور کی سزا میں رعایت کے لیے کہا گیا تو آپﷺ نے غضبناک ہو کر فرمایا: ’’تم سے پہلے امتیں اسی لیے ہلاک کی گئیںکہ وہ طاقتور کو چھوڑ دیتی تھیںاور کمزور کو سزا دیتی تھیں۔ خدا کی قسم میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو ان کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔ یہی اس کائنات کا سب سے بڑا اصول ہے کہ کسی اصول کا اطلاق ہر کس و ناکس پر یکساں ہوگا۔ اسے انصاف اور عدل کہتے ہیں۔ عدل کی ضد ظلم ہے اور حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ معاشرہ کفر پر قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم پر نہیں۔ یہی اصول قوانین بنے تو وہ ریاست وجود میں آئی جسے ریاست مدینہ کہتے ہیں۔ میں یہ سب سوچ رہی ہوں اور اس وقت میرے ذہن میں 2012ء میں میرا تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے کیا گیا انٹرویو بھی چل رہا ہے ۔جب میں نے پوچھا کہ آپ پہلے معاشرہ کو بدلیں گے یا نظام کو، کیونکہ کرپٹ معاشرہ کرپٹ نظام کو جنم دیتا ہے، تو عمران خان نے بڑے پرجوش انداز میں جواب دیا تھا کہ جب اوپر ٹھیک بندہ آ جائے تو سارا نظام درست ہو جاتا ہے اور پھر سارا معاشرہ ۔2013ء کے انتخابات میں نوجوانوں کی جماعت تحریک انصاف کو شکست ہو گئی۔ پھر جناب عمران خان نے سیاست سیکھ لی اور تحریک انصاف 2018ء کا انتخاب جیت گئی لیکن وہ تمام دعوے‘ وعدے اور خواب جو پاکستان کے عوام سے تحریک انصاف کے قائدین نے کیے، وہی آج حکومت کے ڈھائی برس گزرنے کے بعد اس کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہیں۔ سامنے سکرین پر کراچی کے ضمنی انتخابات میں اسلحے کی نمائش‘ فائرنگ اور ہنگامہ آرائی عروج پر ہے، الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق کی ساری خلاف ورزی گھنٹوں بے بسی سے دیکھنے کے بعد اسلحہ بردار افراد کے ساتھ پی ٹی آئی رہنما اور قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ کو حلقہ بدر کرنے کے احکامات دیے اور نہ ماننے پر کراچی پولیس نے حلیم عادل شیخ کو گرفتار کرلیا۔ مجھے وہ دن یاد آ رہے ہیں کہ جب ایسی صورتحال کی ذمہ دار ایم کیو ایم ہوا کرتی تھی اور حضرت علیؓ کا ایک اور فرمان یاد آ گیا۔ طاقت ملنے سے لوگ بدل نہیں جاتے، پہچانے جاتے ہیں۔ لیکن سوال تو یہی ہے کہ اگر اوپر ایسے لوگ ہوں گے تو پھر نظام اور معاشرے میں کیا تبدیلی آئے گی۔ سوال اٹھانا آسان نہیں ہے کیونکہ دوسروں پر تنقید کی خوگر تحریک انصاف خود پر تنقید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اور ہر سیاسی جماعت اسی رویے کا شکار ہے اور تنقید برائے اصلاح کے بجائے تنقید برائے تنقید سے آگے بڑھ کر ٹرولنگ برائے تنقید کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ اگر کوئی غلطی مخالف پارٹی کی ہو تو اس پر طوفان اٹھا لیا جاتا ہے اور اپنی غلطیوں کا ذکر کرنے کو بھی غداری شمار کیا جاتا ہے۔ ان تضادات میں ایک اور تضاد الیکشن کمیشن کے سامنے فیصل واوڈا کی دوہری شہریت کا مقدمہ بھی ہے جس کے مطابق 11 جون 2018ء تک فیصل واوڈا کے پاس امریکی شہریت تھی یعنی جب انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تو وہ امریکی شہری تھے اور انہوں نے اپنی دوہری شہریت کے بارے میں جھوٹ بولا۔ آرٹیکل 63 کے مطابق کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت نامزد ممبر کے پاس صرف پاکستانی شہریت ہونا چاہیے جبکہ رپورٹ کے مطابق واوڈا کی امریکی شہریت کی منسوخی 22 جون کو عمل میں آئی۔ دوہری شہریت کی بنا پر مسلم لیگ کی سعدیہ عباسی سمیت متعدد سینٹرز کی رکنیت منسوخ کی جا چکی ہے اور فیصل واوڈا کی نااہلی بھی قرین قیاس ہے لیکن ایک سال سے اس مقدمہ کو التوا میں رکھنے کے بعد اب تحریک انصاف نے سندھ کے اراکین کے احتجاج کو نظر انداز کرتے ہوئے فیصل واوڈا کو سینٹ کا ٹکٹ جاری کرنے کا حتمی فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان کہتے ہیں فیصل واوڈا کی پارٹی کے لیے خدمات ہیں۔ فواد چودھری کے بقول سینٹ میں پارٹی کی نمائندگی دبنگ انداز میں کرنے کیلئے تحریک انصاف کو فیصل واوڈا کی ضرورت ہے۔ یاد رہے فیصل واوڈا نے قومی اسمبلی میں نمائندگی کرتے ہوئے ملک دشمن 5000 افراد کو روڈ پر گھسیٹنے کے بعد پھانسی دینے کا بیان دیا تھا۔ خیبرپختونخوا سے پی ٹی آئی نے فیصل سلیم کو سینٹ ٹکٹ کے لیے نامزد کیا ہے جنہیں ایف آئی اے امیگریشن کے غیر قانونی کاروبار میں کئی بار طلب کر چکی ہے۔ یہ ایوان بالا کا ذکر ہے جس کی تائید کے بغیر کوئی قانون نہیں بن سکتا اور جس کی سوچ و فکر پالیسی اور قانون کی صورت میں نظام بن جاتی ہے۔ یہی تو وہ نظام ہے جس میں تبدیلی لانی تھی لیکن کیاکریں کہ ہماری سینٹ نے عربی کاسمجھنا تو ضروری سمجھا لیکن رسول عربیؐ کی تعلیمات کو سمجھنا زیادہ ضروری نہیں سمجھا۔ جس ریاست کے وزیر داخلہ اپنے شہریوں اور مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج مجبور عوام اور وفاقی ملازمین پر آنسو گیس کے زائد المیعاد شیل آزمانے کی بات فخریہ انداز میں کریں اور جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار کی موت بھی واقع ہو گئی ہو اور قانون خاموش ہو، اس ریاست کے شہریوں کو مان لینا چاہیے کہ سکون صرف قبر میں ملتا ہے اور انصاف اللہ کی عدالت میں۔ حالات حاضرہ دیکھ کر یقین ہو چلا ہے: رند اتنے گناہ نہیں کرتے جتنے پرہیز گار کرتے ہیں