مکرمی ! سیاسی اشرافیہ نے بینکوں سے اربوں روپے قرض لیے اور پھر یہ بھاری قرضہ جات معاف کروائے۔برسراقتدارطبقات نے دونوں ہاتھوں سے اس رقم سے جائیدادیں بنائیں پلازے بنائے ۔ کیا 68 سالوں میں کسی سربراہ کو توفیق ہوئی کہ کسی غریب آدمی کا قرضہ معاف کردے۔ آج غریب پہلے سے زیادہ غریب اور امیر پہلے سے زیادہ امیر ہو رہا۔ کاش سیاسی اشرافیہ کی بجائے غریبوں کے قرضے معاف ہوتے۔ یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں اطلاعات کے مطابق ماضی قریب کے ایک جمہوری دور میں ہر ایم پی اے, ایم این اے کو ووٹ دینے کا معاوضہ سرکاری کوٹے کی صورت میں دیا گیا ۔ افسوس کہ طلباء غریب ہونے کی وجہ سے فروٹ کی ریڑھیاں لگائیں اور سیاسی اشرافیہ کے نا اہل رشتے دار 'کماؤ' پوسٹوں پر براجمان ہوتے رہیں۔ پھر وہ نا لائق بھی ہوں صاحب اختیار بھی ہوں تو وہ پھر لوٹ مار نہ کریں تو اور کیا کریں؟ (ممتاز علی جعفری ، جامعہ کراچی)