قومی احتساب بیورو نے مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو ایل این جی مقدمے میں گرفتار کر لیا ہے۔ نیب نے شاہد خاقان عباسی کو پیش ہونے کا کہا تھا مگر انہوں نے پیشی سے معذرت کی جس پر نیب نے ان کو حراست میں لے لیا۔ شاہد خاقان عباسی پر الزام ہے کہ انہوں نے بطور وزیر پیٹرولیم ایل این جی کا ایک ٹھیکہ من پسند کمپنی کو دیا۔ نیب کا کہنا ہے کہ پندرہ برس تک کی مدت کے اس ٹھیکے سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچاہے۔ شاہد خاقان عباسی کا موقف ہے کہ ملک میں توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لئے یہ ٹھیکہ ضروری تھا۔ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران جب ایل این جی کا ذکر کیا تو ایوان میں ان پر گیس معاہدے میں بے ضابطگی کے الزامات سامنے آئے تھے۔ نیب نے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف الزامات کی جو تفصیل جاری کی ہے ان کے مطابق ایل این جی ٹھیکے کی بولی لگانے کے لئے بطور بین الاقوامی کنسلٹنٹ کیو ای ڈی کنسلٹنگ کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس کمپنی کو یہ کام دینے کا عمل قوانین کے خلاف تھا اور اس حوالے سے شاہد خاقان عباسی نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ دوسرا الزام یہ ہے کہ شاہد خاقان عباسی نے اپنی مرضی کی کمپنی مے ورک ایڈوائزری کو بغیر کسی مسابقت کے کیو ای ڈی کنسلٹنگ کے ساتھ منسلک کیا تاکہ وہ ٹھیکے کی ضروریات کا تعین کر سکے۔ تیسرا الزام یہ ہے کہ 2006میں وضع کی گئی قومی توانائی پالیسی کے برعکس ایل این جی کو خریدنے کا ذمہ دار انٹر سٹیٹ گیس سسٹمز کو بنایا گیا حالانکہ پالیسی کے تحت اس امر کی مجاز صرف سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ تھی۔ چوتھا الزام یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایل این جی ٹرمینل کی اضافی استعداد کے چارجز کا کوئی جواز یا بریک ڈائون نہیں دیا گیا کیونکہ ایم ایس ای ای ٹی پی ایل اس ٹھیکے کی واحد بولی دہندہ کمپنی تھی۔ شاہد خاقان عباسی پر اس سلسلے میں نیب الزام عائد کرتا ہے کہ انہوں نے اپنے اثرورسوخ کا بے جا استعمال کرتے ہوئے سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ کی نئے ایل این جی ٹرمینل کے حوالے سے کوششوں کو روکا اور ایم ایس ای ای ٹی پی ایل کے سابق سی ای او عمران الحق کو ایم ڈی پی ایس او تعینات کیا۔ ایل این جی کیس کے علاوہ نیب شاہد خاقان عباسی کے خلاف نعیم الدین خان کو بنک آف پنجاب کا صدر مقرر کرنے کے معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے۔ شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری کی فوری وجہ ان کا نیب تحقیقات میں تعاون نہ کرنے کا طرز عمل ہے۔ بظاہر مسلم لیگ ن کے وہ تمام عہدیدار جو کسی نہ کسی معاملے میں نیب کو مطلوب ہیں ان کی حکمت عملی میں مماثلث دکھائی دیتی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون نہ کیا جائے اور ایسا ماحول بنا دیا جائے کہ ان لوگوں کو گرفتار کرنا پڑے۔ قبل ازیں ایسی رپورٹس منظر عام پر آ چکی ہیں کہ حمزہ شہباز نیب کی طلبی پر پیش نہیں ہوتے رہے۔ گرفتاری کے بعد بھی وہ نیب کے تفتیشی عملے کو سوالات کا جواب دینے کی بجائے ادھر ادھر کی باتیں کر کے وقت گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری پر مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف اور دیگر عہدیداروں نے جس ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ احتساب کے عمل کو سیاسی انتقام کی صورت میں دنیا کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں کسی جمہوری اصول کے تحت منظم نہیں کی گئیں۔ عموماً ایک خاندان ہر جماعت کا مالک و مختار ہوتا ہے۔ اس خاندان کے وفاداروں کو درجہ بدرجہ عہدے عنایت کر دیے جاتے ہیں۔ ان خاندانی جماعتوں نے ریاست کے وسائل کو بے رحمی‘ بلا خوف احتساب استعمال کیا۔ آج پاکستان کے عوام جن مشکلات کو جھیل رہے ہیں ان کی وجہ سابق حکمرانوں کا غیر ذمہ دارانہ اور قانون سے ماورا طرز عمل رہا ہے۔ سیاسی روایات کو جمہوری سانچے میں ڈھالنے میں ناکام سابق حکمران جماعتوں کو جب کبھی اقتدار ملا انہوں نے قانون‘ ضابطے اور اصول کو پرکاہ برابر اہمیت نہ دی۔ یہ درست ہے کہ پاکستان توانائی کے سنگین بحران کا شکار ہے۔ مسلم لیگ ن نے اس بحران کو حل کرنے کی کچھ کوششیں کیں مگر ان کوششوں کو جگہ جگہ بدنیتی اور بدعنوانی نے نقصان پہنچایا۔ نندی پور پاور سٹیشن کی تعمیر اور پھر اس کو چلانے کے معاملات آج تک درست نہیں ہو سکے اور آئی پی پیز کو ادائیگیوں میں من پسند کمپنیوں کو جس طرح نوازا گیا وہ سب ریکارڈ کا حصہ بن چکا ہے۔ ایل این جی کے ٹرمینل اور خرید کے معاملات پر سابق دور حکومت میں اپوزیشن جماعتیں اعتراض کرتی رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن پنجاب میں مسلسل دس سال اور مرکز میں پانچ برس کے اقتدار کے دوران بہت سے میگا منصوبوں میں شکایات کا جواب دینے میں ناکام رہی۔ اس وقت میاں نواز شریف‘ مریم نواز‘ شہباز شریف‘ حمزہ شہباز‘ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی دیگر اولاد اور داماد حضرات سمیت درجنوں لیگی عہدیداروں کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔ دیکھا گیا ہے سیاستدان اپنے خلاف تحقیقات میں اصل الزام کی جگہ دوسری ایسی باتوں کو اچھالتے ہیں جس سے ذرائع ابلاغ میں مقدمہ سیاسی نوعیت کا دکھائی دے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سستی اورقانونی عمل کو پیچیدہ و طویل بنا کر ملزمان کی درپردہ مدد کی جاتی ہے۔ نیب اور دیگر ادارے اس سلسلے میں طویل تحقیقات کی بجائے تفتیشی عمل کو مختصر اور شفاف بنا کر بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے مرتکب افراد کی گرفتاری پر سیاسی تحریک کی بنیاد استوار کرنے والوں کو ناکام بنانے کے لئے ضرور حکمت عملی وضع کریں۔