دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کورونا اپنے پنجے گاڈ رہا ہے لیکن عوامی سطح پر اسے سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا۔ میڈیا چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ روزانہ کیسز بڑھتے جا رہے ہیں اموات بڑھ رہی ہیں لیکن عوام تو کیا سیاسی لیڈر بھی اسے سنجیدہ نہیں لے رہے۔عام لوگوں کا خیال ہے کہ جلسے جلوسوں سے حکومت گرا نہیں سکتے لیکن جلسوں کی وجہ سے کورونا جس تیزی سے پھیلے گا اس کا اندازہ شاید کسی کو نہیں، اگر یہ اتحاد وبا کے دنوں میں جلسے کرتا رہا تو ہزاروں لوگوں کی زندگیاں دائو پر لگ سکتی ہیں اس کا ذمہ دار کون ہو گا ؟عوام بھی ذرا سوچیں۔ آج تک حکومتوں کے خلاف کب کب اور کون سے اتحاد بنے ان کا کیا انجام ہوا ایک نظر اس پر ڈالتے ہیں۔ پاکستان میں اب تک ایک درجن سے زائد سیاسی اتحاد بن چکے ہیں یہ اتحاد الیکشن سے پہلے یا الیکشن کے بعد بنے، الیکشن سے پہلے بننے والے اتحاد حکومت بنانے کے لئے اور الیکشن کے بعد بننے والے اتحاد حکومت ہٹانے کے لئے بنائے گئے ۔ کبھی ایسا بھی ہوا کہ حکمرانوں کی حکومت بچانے کے لئے اتحاد بنائے۔ لیکن یہ اتحاد کبھی جمہوریت کے لئے اچھے ثابت نہیں ہوئے۔ 1953ء میں ایک اتحاد بنا جو مسلم لیگ کے خلاف تھا، اس اتحاد کا نام یونائٹیڈ فرنٹ تھا ،مشرقی پاکستان میں صوبائی انتخابات میں اس اتحاد نے 223نشستیں لیں، مسلم لیگ صرف 9سیٹیں لے سکی ،صرف اس اتحاد کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ کامیاب رہا۔ دوسرا اتحاد صدر ایوب کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت میں بنا، 1965ء کے صدارتی الیکشن میں ایوب خان کا نشان گلاب کا پھول اور فاطمہ جناح کا لالٹین تھا لیکن اس دوران فاطمہ جناح کے خلاف پراپیگنڈا کیا گیا کہ اسلام میں خواتین کو حکومت کرنے کی اجازت نہیں،یہ پراپیگنڈا کارگر ثابت ہوا اور فاطمہ جناح وہ الیکشن ہار گئیں۔30اپریل 1967ء میں نواب زادہ نصراللہ 5پارٹیوں پر مبنی پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے نام سے اتحاد بنایا، اس اتحاد نے ایوب خان کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا، بعد میں اس اتحاد کا نام بدل کر پاکستان ڈیمو کریٹک ایکشن کمیٹی رکھ دیا گیا۔1977ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے خلاف 9جماعتیں اتحاد بنا، جسے 9ستارے بھی کہا گیا، اس اتحاد کا نام پاکستان قومی اتحاد رکھا گیا،اس اتحاد نے ملک میں نظام مصطفیﷺ نافذ کرنے کا اعلان کیا۔ اس اتحاد نے عوامی حلقوں میں پذیرائی حاصل کی، مذہب کو سیاسی طور پر استعمال کیا گیا لیکن الیکشن میں اس اتحاد کو صرف 36سیٹیں ملیں ۔الیکشن پیپلز پارٹی جیت گئی، اس اتحاد نے ذوالفقار بھٹو پر دھاندلی کا الزام لگایا اور انتخابی نتائج ماننے سے انکار کر دیا او ساتھ ہی اس حکومت کے خاتمے کے لئے ملک گیر احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے، دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک سول نافرمانی کی تحریک میں تبدیل ہو گئی، لاہور اور کراچی سمیت کچھ شہروں میں مارشل لاء لگایا گیا لیکن حالات ٹھیک نہ ہوئے تو جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کو برطرف کرکے ملک بھر میں مارشل لاء لگا دیا اورخود اقتدار سنبھال لیا۔ بعدازاں ذوالفقار بھٹو کو پھانسی دیدی گئی۔1981ء میں جنرل ضیاء الحق کے خلاف ایم آر ڈی تحریک کی بنیاد رکھی گئی ،اس تحریک کا مقصد جمہوریت کی بحالی تھا، اس تحریک کی قیادت نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے کی ،اس اتحاد میں 10سے زیادہ سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔ یہ تحریک رفتہ رفتہ دم توڑتی گئی اور صرف سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی۔1988ء کے الیکشن سے قبل پیپلز پارٹی کے خلاف ہی غلام مصطفی جتوئی کی قیادت میں بننے والے اس اتحاد میں نواز شریف بھی شامل تھا۔ اس اتحاد کا نام اسلامی جمہوری اتحاد تھا، یہ اتحاد بھی 9سیاسی جماعتوں پر مشتمل تھا یہ اتحاد پنجاب میں زیادہ سیٹیں لے کر حکومت بنانے کی پوزیشن پر آ گیا۔جبکہ پیپلز پارٹی 94سیٹیں لے کر مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ بعدازاں پی پی حکومت کو برطرف کر دیا گیا اور 1990ء میں قبل ازوقت الیکشن ہوئے۔90ء میں ہونے والے الیکشن میں 2اتحاد بنے،ایک اتحاد آئی جے آئی اسلامی جمہوری اتحاد اور دوسرا پی ڈی اے یعنی پیپلز ڈیمو کریٹک الائنس بنا، اسلامی جمہوری اتحاد کی سربراہی نواز شریف جبکہ پی ڈی اے کی سربراہی بینظیر بھٹو کر رہی تھیں۔ نواز شریف کو 106اور بینظیر کو 45نشستیں ملیں،اس عرصے کے دوران 58-2/Bکا استعمال ہوتا رہا اور منتخب حکومتوں کو مدت پوری ہونے سے پہلے ہی گھر بھیجا جاتا رہا۔ 1997ء میں ایک اور اتحاد بنا،گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس بنا۔ جی ڈی اے کی سربراہی نوابزادہ نصراللہ خاں نے کی، یہ اتحاد نواز شریف کی حکومت کے خلاف بنایا گیا۔ ملک میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر رہیں کہ اچانک 12اکتوبر 1999ء کو جنرل مشرف نے نواز حکومت کو برطرف کر دیا، اس کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کے استحکام کے لئے باہمی اختلافات ختم کرنے کا فیصلہ کیا، 15سے زیادہ سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو گئیں۔ ایک بار پھر ایک اتحاد اے آر ڈی تحریک بحالی جمہوریت کے نام سے بنا اور جنرل مشرف کو ملک میں الیکشن کرانے پر مجبور کیا۔2002ء میں ملک بھر میں الیکشن کرائے گئے جس میں ایک اور مذہبی جماعتوں کا اتحاد بنا جس کا نام متحدہ مجلس عمل ایم ایم اے رکھا گیا۔ ایم ایم اے ان انتخابات میں 57سیٹیں حاصل کر کے ملک کی تیسری بڑی قوت بن گئی۔ اس اتحاد نے بلوچستان اور کے پی میں حکومتیں بنائیں مرکز میں مولانا فضل الرحمان اپوزیشن لیڈر بنے۔ یوں یہ پہلی اسمبلی تھی، جس نے مدت پوری کی گو کہ اس مدت میں 3وزیر اعظم بنے پہلے ظفر اللہ جمالی پھر چودھری شجاعت اور پھرشوکت عزیز وزیر اعظم بنے اس کے بعد 2008ء کے الیکشن ہوئے اور پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی، پی پی نے حکومت میں ایم کیو ایم ‘ عوامی نیشنل پارٹی اور جے یو آئی ف کو شامل کیا اور 5سال تک اس اتحاد کے ساتھ اسمبلی نے مدت پوری کی لیکن اس دوران سپریم کورٹ کا ایک حکم نہ ماننے پر یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونے پڑے، بعدازاں راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم بنے۔2013ء میں پھر الیکشن ہوئے اور اس بار ن لیگ برسر اقتدار آئی اور اس بار پہلی بار تحریک انصاف بھی ایک سیاسی پارٹی کے طور پر سامنے آئی اور اسمبلی میں اچھی خاصی سیٹیں حاصل کیں لیکن ن لیگ کی حکومت کا یہ پورا دور تحریک انصاف کے جلسوں ریلیوں اور دھرنوں میں گزر گیا۔ اس دوران نواز شریف نااہل ہوئے 2018ء کے الیکشن میں تحریک انصاف حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی، پنجاب کے پی اور مرکز میں حکومت بنائی جبکہ ن لیگ آئوٹ ہو گئی اور پیپلز پارٹی صرف سندھ تک محدود ہوئی۔ سیاسی جماعتوں نے اس الیکشن کے نتائج ماننے سے انکار کر دیا،خاص طور پر مولانا فضل الرحمن جو شاید پہلی بار اسمبلی سے باہر ہوئے، انہیں اس بات کا زیادہ غم تھا،انہوں نے شروع میں تمام جماعتوں کو حلف اٹھانے سے روکا لیکن بعدازاں حکومت کے خلاف لانگ مارچ کیا لیکن ن لیگ اور پی پی نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ اب ایک بار پھر تمام اپوزیشن کی 11جماعتیں حکومت گرانے کے لئے کمر کس لی ہے اور جلسے جلوس شروع کر دیے ہیں، جلسوں کے بعد اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کا بھی اعلان کر رکھا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ اتحاد حکومت گرائے یا نہیں۔