سیاسی اشرافیہ اور اعلیٰ سرکاری افسران کے زیر استعمال سرکاری گاڑیوں کے 1079ای چالان میں سے صرف دس کے جرمانے جمع ہوئے ہیں۔ کسی عام شہری کی گاڑی کے اگر10سے زائد چالان ہو جائیں تو شہر بھر کی پولیس اس گاڑی کا تعاقب کرتی اور گاڑی کو تھانے میں بند کر دیا جاتا ہے۔ گو ای چالان کے حوالے سے ٹریفک پولیس کو ان عام شہریوں سے بھی مشکلات کا سامنا ہے جنہوں نے گاڑیاں اپنے نام ٹرانسفر نہیں کروائیں، ان کے چالان گھر پر ڈیلیور نہیں کروائے جا سکتے۔ ٹریفک پولیس کی طرف سے 100چالان ہونے کے بعد رکشا کو پکڑنا اس کا ثبوت ہے۔ اب سرکاری گاڑیوں کے 1029ای چالان جمع نہ کروانے کا معاملہ سامنے آیا ہے جو باعث حیرت و تشویش ہے ۔ترجمان پنجاب حکومت سمیت 61سے زائد سیاسی و انتظامی افسران کی گاڑیوں کے چالان بھی جمع نہیں ہو سکے یہاں تک کہ صوبے کے چیف سیکرٹری کے سٹاف افسر کی گاڑی کے سب سے زیادہ 51ای چالان ہوئے مگر ایک بھی جمع نہ ہوا ۔جب حکومتی عہدیدار اور اعلیٰ افسر ہی قانون کی دھجیاں اڑائیں گے تو عام شہریوں سے قانون کی پاسداری کی امید کیونکر رکھی جا سکتی ہے۔ بہتر ہو گا وزیر اعلیٰ پنجاب معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے نہ صرف سرکاری گاڑیوں کے چالان فوری طور پر جمع کروائیں بلکہ جن سرکاری اور سیاسی افراد کے یہ گاڑیاں زیر استعمال ہیں ان کو بھی انصاف کے کٹہر ے لائیں تا کہ سب کے لئے ایک قانون کے نعرے کا عملی مظاہرہ ممکن ہو سکے۔