جمہوریت اور سیاسی رہنمائوں سے دانشمندی کی امید رکھنے والوں کے لئے پارلیمنٹ کے سامنے مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے کارکنوں میں تصادم باعث مایوسی تھا۔لیگی رہنما شاہد خاقان عباسی‘ مصدق ملک ‘ احسن اقبال اور مریم اورنگ زیب کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا وہ قابل مذمت ہے۔ دوسری طرف یہ رہنما اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پی ٹی آئی کارکنوں کے پیچھے دوڑتے رہے۔ایک لیگی رہنما کی بدزبانی کی ویڈیو وائرل ہو چکی ہے۔ اس واقعہ کا یقینا ایک پس منظر ہے‘سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ نون لیگی رہنما جب اجلاس کا بائیکاٹ کر چکے تھے تو انہوں نے پیپلز پارٹی کی طرح پارلیمنٹ ہائوس سے ایک دن تک دور رہنے کا فیصلہ کیوں نہ کیا مگر اس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں اور اراکین اسمبلی کی تربیت کرنے میں غفلت کیوں دکھا رہی ہیں۔امیر محمد خان آف کالا باغ وہ پہلی شخصیت تھے جنہوں نے طاقت کے زور پر سیاسی غلبہ پایا۔ ان کو ایوب خان کی سرپرستی حاصل تھی جو کسی بھی قیمت پر اپنے سیاسی مخالفین کو کمزور کرنا چاہتے تھے۔ ان کو دیکھ کر جو جاگیر دار سیاست میںآئے وہ اسی نمونے پر سیاسی مخالفین کو دباتے رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک طاقتور جمہوری رہنما کے طور پر ابھرے۔ان کی ذہانت اور مستعدی قابل ستائش تھی لیکن سیاسی مخالفین اور بسا اوقات اپنی ہی جماعت میں اختلاف رائے کا اظہار کرنے والوں کے ساتھ بدسلوکی کے معاملات کرنے میں وہ بدنام تھے۔جنرل ضیاء الحق نے طویل آمرانہ عہد کا خاتمہ کرتے ہوئے 1985ء میں عام انتخابات کرائے۔یہ انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے ان میں ایسے لوگ ابھر کر آئے جو روپے کے زور پر سیاستدان بنے۔ ان انتخابات نے ملک کی سیاسی ثقافت بدل کر رکھ دی۔پہلے انتخابی اور سیاسی رنجش میں دولت کا استعمال نہیں تھا ان انتخابات نے خرابی کا یہ در کھول دیا۔ نوے کے عشرے نے پاکستان کو بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف جیسے سیاستدان دیے۔ بے نظیر بھٹو عالمی امور اور جمہوری روایات سے واقف تھیں۔ خاتون ہونے کی وجہ سے اپنے سیاسی مخالفین کے لئے ان کا رویہ شائستگی پر مبنی ہوتا لیکن ان کے مخالفین نے بھٹو خاندان کی خواتین کی قابل اعتراض تصاویر تقسیم کیں‘اسمبلی میں خاتون وزیر اعظم پر رکیک جملے اچھالے جاتے‘ مسلم لیگ ن کی قیادت کے ان حملوں سے تنگ بے نظیر بھٹو نے ایک دن نواز شریف کے شیر ہونے پر ایسی بات کہی کہ جو انتہائی نامناسب تھی۔اس سلسلے میں مسلم لیگ ن نے ہر مخالف کی کردار کشی شروع کر دی۔1997ء کے انتخابات میں تحریک انصاف نے اپنے امیدوار کھڑے کئے‘میاں نواز شریف نے عمران خان کو پہلے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی پیشکش کی‘ انکار پر سیتا وائٹ سکینڈل لے آئے۔ اس سکینڈل نے عمران خان کی سیاسی پوزیشن پر منفی اثرات مرتب کئے۔ عمران خان کئی سال تک موثر سیاسی کردار ادا کرنے کے قابل نہ رہے۔یہ تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی باری باری آنے والی حکومتوں کی نااہلی اور ناکامی تھی کہ عوام تحریک انصاف کی طرف متوجہ ہوئے۔سیاست ایک شائستہ اور سنجیدہ کام ہے۔ لشکروں کے ساتھ اقتدار کا فیصلہ کیا جانا ہو تو پھر مطلق العنان بادشاہت رائج ہو جاتی ہے۔ پہلے وقتوں میں کسی چھوٹے علاقے کا کوئی ڈاکو اپنے جرائم پر پردہ ڈال کر خود کو باغی بنا کر پیش کرتا اور پھر لوٹ کے مال میں سے حصے کا وعدہ کر کے جنگجو بھرتی کر لیا کرتا ، بہت سے لوگ بعدازاں حکمران بنے۔ آج کا عہد ڈاکوئوں اور زبردستی کے حکمرانوں کا نہیں۔ اب وہی حکمران ہے جسے عوام کا مینڈیٹ حاصل ہے‘ آئینی مدت مختص ہے۔ اس مدت سے پہلے انتخابات کا نتیجہ نوے کے عشرے میں بھگت چکے ہیں‘ جو تجربہ بار بار ناکام رہا ہو اسے دہرا کر قوم کا وقت اور ریاست کے وسائل ضائع کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔پاکستان خطے کا ایک اہم ملک ہے‘ سی پیک کی تعمیر ہماری آئندہ خوشحالی اور معاشی بقا کے لئے ضروری ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اس امر پر اتفاق موجود ہے کہ سی پیک قومی مفادات کے تحفظ کا ذریعہ ہے۔ جس امر کا احساس نہیں کیا جا رہا وہ یہ ہے کہ یہ کسی جماعت نہیں ریاست کا منصوبہ ہے۔ بھارت اور امریکہ جب اس منصوبے کی مخالفت کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ریاست پاکستان کا مفاد انہیں قبول نہیں۔ اس منصوبے کو روکنے کے لئے ملک میں انتشار اور عدم استحکام لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ افسوسناک بات یہ کہ وہ جماعتیں جو سی پیک کی بانی اور معمار ہیں وہ خود نادانستہ طور پر اس منصوبے کا حصہ بنتی نظر آ رہی ہیں۔جمہوریت اس وقت کمزور ہوتی ہے جب فریقین ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم نہیں کرتے‘ ادارے ایک دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت کرتے ہیں اور سیاسی کارکن اختلاف رائے کے اظہار کا قرینہ بھول بیٹھتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے سامنے جو کچھ ہوا وہ 2014ء میں تحریک انصاف ایوان کے اندر بھگت چکی ہے،نون لیگ کے دور میں شیخ رشید ایسی بد سلوکی کا شکار ہو چکے ہیں۔ ایسا دوبارہ نہ ہو اس کے لئے حکومت کو دل بڑا کر کے بدسلوکی کے شکار رہنمائوں کی تالیف قلب کرنی چاہیے۔سیاسی سطح پر کشیدگی اور تصادم مکالمے کی گنجائش بند کر دیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ماضی غلطیوں سے سبق سکھانے والی کتاب ہے‘اس کتاب میں غلطیوں کے نتائج تحریر ہیں۔ اپوزیشن اور حزب اقتدار کے سنجیدہ افراد کو آگے بڑھ کر اس سلسلے میں ایک ضابطہ اخلاق ترتیب دینا چاہیے جو ناصرف پارلیمنٹ کے اندر بلکہ جلسوں اور ٹی وی شوز میں بھی شائستگی کے ساتھ اپنا موقف پیش کرنے کی ضمانت دے۔