سیاسی تھیٹر خوب لگا ہوا ہے اور ہر منظر دوسرے منظر سے مختلف ہے۔ اس سیاسی تھیٹر میں مختلف ڈرامے عوام کی تفریح طبع کے لیے پیش کیے جا رہے ہیں۔ کسی ڈرامے کو رش زیادہ مل رہا ہے تو کسی کا شو فلاپ جا رہا ہے۔ بہر حال آج بروز منگل جب کالم لکھا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ ن اپنے سیاسی تھیٹر پر جیل واپسی کا ڈرامہ پیش کرے گی۔ جیل واپسی کے اس ڈرامے کی پبلسٹی کرنے کے لیے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم استعمال کیے جا رہے ہیں۔ سب سے زیادہ موثر پیغام، ٹوئٹر سے موصول ہو رہے ہیں۔ جہاں جیل جانے کو اس طرح بنا کر پیش کیا جا رہا ہے گویا ایک متوقع فاتح کوئی بہت عظیم معرکہ سر کرنے جا رہا ہو تو اسے اس انداز میں رخصت کیا جا رہا ہے۔ چلو چلو کوٹ لکھپت جیل چلو۔ ویسے واقفان حال یہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کا جیل جانا ایک ذرا ساو قفہ ہے کہیں اور جانے سے پہلے۔ یعنی آگے چلیں گے دم لے کر یہاں آگے سے مراد وہ والا آگے ہرگز نہیں جو اس سفر کے پہلے مصرعے کی پڑھت سے درآمد ہوتا ہے۔ موت اک زندگی کا واقعہ ہے۔ یعنی آگے چلیں گے دم لے کر ۔ یہاں آگے سے مراد برطانیہ کی محفوظ فضائیں ہیں جہاں جانے کو سابق وزیراعظم میاں نواز شریف بے تاب اور بے قرار ہیں۔ آخر کو بیمار ہیں اور بیماری بھی دل کو لاحق ہے، علاج پاکستان سے کروانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ نہ دوائیں اصلی ہیں، نہ ڈاکٹر اتنے قابل بلکہ اب تو اسپتالوں میں سفید کوٹ والے ڈاکٹروں کو دیکھتے ہی مریض خوفزدہ ہو کر حفاظت کی جتنی دعائیں یاد ہوتیں وہ پڑھنے لگتے ہیں رنگ ان کے پیلے پھٹک ہو جاتے ہیں، موت سامنے دکھائی دینے لگتی ہے۔ کراچی اور لاڑکانہ سے آنے والی پے در پے خبروں نے ایسی حالت کر دی ہے کہ ڈاکٹر مسیحا کم اور حضرت عزرائیل کے رشتہ دار زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ لاڑکانہ کا تذکرہ ہو اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو یاد نہ آئیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے ویسے آج کل ان کا سیاسی تھیٹر میں لگنے والا شو کافی رش لے رہا ہے اور وہ سیاست کی ناتجربہ کاری کے باوجود ایک کامیاب اپوزیشن لیڈر کا کردار نبھانے کی بھرپور کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ن لیگ کی صفوں میں تو خاموشی اور نظریہ ضرورت کے تحت مصلحت کوشش کا راج ہے۔ اس لیے مہنگائی اور بڑھتی ہوئی پٹرول کی قیمتوں پر اپوزیشن کا روایتی سیاسی واویلا صرف پیپلز پارٹی کی طرف سے سیاسی ڈرامے سے رنگ بھر رہا ہے۔ سیاسی تجزیہ کار بھی کہنے پر مجبور ہیں کہ اپوزیشن کے روایتی کردار کا خانہ بلاول بھٹو نے پر کیا ہے۔ کیونکہ شریفوں کے ہاں تو دھیمے سروں میں جو گانا سنائی دے رہا ہے اس کو بول کچھ یوں۔ ساڈا چڑیاں دا چنبہ اے بابل اساں اڈھ جانا۔ رخصتی پر ایسے جذباتی بول شاید ہی کوئی اور ہوں۔ خاموشی، مصلحت کوشی اور بے یقینی کے ایسے موسم میں کہیں کہیں مریم اورنگزیب راجہ ظفر الحق، احسن اقبال اور رانا ثنا اللہ کی آوازیں سنائی دے جاتی ہیں لیکن ان میں دم خم اس لیے زیادہ نہیں ہوتا کہ وہ خود بے یقینی کی مٹی پر کھڑے ہو کر شریفوں سے اپنے وفاداری نبھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شریفوں کے دل میں کیا ہے وہ شاید ایک دوسرے سے بھی چھپاتے ہیں، بڑے بھائی چھوٹے بھائی سے اور چھوٹے بھائی بڑے بھائی سے پارٹی کی قیادت پارٹی رہنمائوں اور ورکروں کے درمیان اعتماد کا رشتہ برقرار نہ رہے تو بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں مٹی کے کھلونوں کی طرح بھرتے لگی ہیں۔ جذباتی طور پر پارٹی سے جڑے ہوئے کمٹڈ کارکنوں میں مایوسی پھیل جاتی ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کا اثاثہ اس کے وفادار کارکن ہوتے ہیں۔ لیکن کارکنوں کی وفادار سیاسی قیادت کے ساتھ اعتبار اور اعتماد کے رشتے سے جڑی ہوتی ہے۔ سیاسی ورکروں کے ساتھ شریفس کا یہ رشتہ اس سے پہلے بھی بد اعتمادی کی زد میں رہ چکا ہے جب شریفس سیاسی پناہ لے کر جدہ کی محفوظ فضاوں میں اپنے کاروبار کو بڑھاوا دینے میں مشغول رہے تھے اور مسلم لیگ ن سے وابستہ سیاسی رہنما ، ورکر مشرف دور کی سختیاں سہنے کو یہاں پاکستان میں تنہا تھے۔ اس وقت جو مسلم لیگ ن اسی دوراہے پر کھڑی ہے۔مسلم لیگ ن سے وابستہ کارکن پیپلز پارٹی کے سیاسی کارکنوں کی طرح ماریں نہیں کھا سکتے، وار ورسن سے گھبراتے ہیں۔ قیادت بھی اپنے کارکن کے مزاج کو سمجھتی ہے تو اس وقت ایک ان کہا بیانہ یہی ہے کہ مشکل وقت سے کسی طرح نکلا جائے سیاست ہوتی رہے گی۔ دیکھئے سیاسی تھیٹر میں لگے اس ڈرامے کا ڈراپ سین کب اور کیسے ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو اندھی عقیدت رکھنے والے ماریں کھانے اور جلیں بھرنے والے سیاسی ورکر میسر ہیں۔ ایسی اندھی عقیدت سیاسی رہنما کے لیے تو خوش آئند ہوتی ہیں لیکن پاکستان اور جمہوریت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے کیونکہ سیاسی فالورز اندھی عقیدیت رکھتے ہیں ان کے شعور کے دروازے بند ہوتے ہیں۔ سوال کرنے کی جرات نہیں رکھتے اور نتیجہ غربت زدہ ایڈز سے بیمار لاڑکانہ کی صورت نکلتا ہے۔ جہاں افلاس زدہ لوگ آج بھی جئے بھٹو کے نعرے لگاتے بلاول کو وزیراعظم دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں یہ سادگی ہے، یا پھر خود کو فریب دینے کا ایک مسلسل عمل۔ کئی دہائیوں سے سندھ میں پیپلز پارٹی کا راج ہے لیکن حالات پہلے سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ سیاسی منظر نامے پر جاری اس تھیٹر میں کچھ نئی انٹریاں ہوئیں، عہدوں کی کچھ اتھل پتھل بالکل ایسے جیسے گھر کے پرانے سامان کو اٹھا کر اس کی جگہ تبدیل کر کے منظر نامے میں تبدیلی لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہم تو ویسے بھی آئی ایم ایف کی مریدی میں آئے ہوئے لوگ ہیں۔ سو ان کے نمائندے ہمارا اسٹیٹ بنک سنبھالیں۔ یا ملک کی پوری معاشیات کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لے لیں ہمارا اعتراض چہ معنی! beggars are not choosers. سیاسی تھیٹر خوب لگا ہوا ہے۔ ہر منظر دوسرے منظر سے مختلف اور دلچسپ !