اک فسانہ تھا حقیقت کی طرف موڑ دیا ہم تجھے چھوڑ نہیں سکتے تھے پرچھوڑ دیا ہم تو دریا تھے کسی سمت تو بہنا تھا ہمیں کیا خبر کس نے تری سمت ہمیں موڑ دیا آج جب میں لکھنے بیٹھا ہوں تو احمد فراز کی بارہویں برسی ہے تو مجھ پر لازم آتا ہے کہ ان کا تذکرہ چھیڑوں مگر کچھ تازہ تازہ بھی ہے جو مجھے کھینچتا ہے۔ جس بات پر بے ساختہ مجھے ایک ہی وقت میں ہنسی بھی آ رہی ہے اور رونا بھی کہ ایک مرتبہ پھر حکومت کے وزیروں مشیروں اور دانشوروں نے سر جوڑ کر فیصلہ کیا ہے کہ موجودہ مہنگائی افراتفری اور لاقانونیت کا ایک ہی یقینی حل ہے کہ بس کسی طرح سے نواز شریف کو واپس لایا جائے۔عوام کو نوید ہو کہ اسمبلی اجلاس میں بھی گرما گرمی آ گئی ہے اور آپ کی تفریح کا پورا سامان مہیا کر دیا گیا ہے۔ ابھی خاقان عباسی اور شاہ محمود قریشی کے مابین بڑا دنگل برپا ہوا، ایک نے دوسرے کو چور، تو دوسرے نے پہلے کے باپ کو چور قرار دے دیا۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ دونوں سچے تھے یا دونوں جھوٹے۔ بہرحال لڑائی مزیدار تھی۔ سپیکر نے خاقان عباسی سے الفاظ واپس لینے کو کہا تو انہوں نے کہا قریشی صاحب جھوٹ بولنا چھوڑ دیں وہ اپنے الفاظ واپس لیں گے اس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگر وہ سچ بولنے پر آ گئے تو خاقان عباسی کا سب کچھ عیاں ہو جائے گا: لڑتے لڑتے ہو گئی گم ایک کی چونچ اور ایک کی دم میرے معزز قارئین!آپ خاطر جمع رکھیں گے کہ آپ کا کوئی نہیں سوچے گا آپ کو وہی ماش کی دال چار صد روپے کلو خریدنا پڑے گی۔ ہاں ایک مسئلہ تو حل ہو گیا کہ شہباز شریف پوچھتے تھے کہ کون سا این آر او وہ دکھا دیا گیا کہ نیب ترمیم کی آڑ میں وہ چھوٹ لینا چاہتے تھے جو نہیں ملی اور بل منظور ہو گیا۔ اب منی لانڈرنگ نہیں ہو گی۔ جائز تو خیر یہ پہلے بھی نہیں تھی۔ چلیے اب خان صاحب آگے کا سوچیں۔ بقول ان کے معیشت درست سمت گامزن ہو چکی ہے مگر یہ کسی کو معلوم نہیں کہ اس کے ثمرات عوام تک ان کے ہوتے ہوئے پہنچیں گے کہ نہیں۔ کیونکہ میں بھی ایک غریب شہری کا انٹروی دیکھ رہا تھا وہ اچھا خاصا آدمی تھا، بتاتے ہوئے روپڑا کہ وہ بجلی کا بل نہیں دے سکتا موجودہ مہنگائی نے قیامت ڈھا دی۔ واللہ بے چارہ رو پڑا انٹرویو کرنیوالا بھی آبدیدہ، ظاہر ہے میرا دل بھر آیا۔ ہائے ہائے کیا ریاض مجید کا رومانٹک شعر یاد آ گیا کہ یہاں بھی کتنا بامعنی ہے: وقت خوش خوش کاٹنے کا مشورہ دیتے ہوئے رو پڑا وہ آپ مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئے آپ سوچتے ہونگے کہ میں فراز کا تذکرہ نہیں چھیڑ رہا۔ تو صاحبو! یقینا میں ان پر کوئی تدریسی مضمون تو نہیں لکھ سکتا، ان کے ساتھ بیتے ہوئے دن ہیں جو یادوں کی صورت ساتھ ہیں۔ تاہم ان کا شعری مقام بہت بلند ہے ۔خاص طور پر ان کے ہاں مصرع سازی کمال ہے وہ بہت ہی نپا تلا اور سانچے میں ڈھلا ہوا مصرع کہتے تھے۔ اس حوالے سے احمد ندیم قاسمی ایک اور شاعر کے لئے بہت رطب اللسان تھے کہ ساحر لدھیانوی جیسا مصرع بھی کم ہی کوئی کہے گا۔ اصل میں شاعری کی بنیاد اس مصرع پر ہی ہوتی ہے۔ اسی خوبصورتی کے باعث فراز صاحب کی شاعری یاد رہ جانے والی بن گئی۔ ہم انگریزی میں اسے پرووربل Proverbial شاعری کہتے ہیں کہ مصر ع کے اقوال کی صورت اختیار کر جائیں۔ غالب و اقبال میں یہ چیز نظر آتی۔ مثال دیکھیے دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا‘ کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔ اور اس طرح کے بے شمار مصرعے ہائے رنگا رنگ۔ایک اور بات جو نوجوان شعرا کو بتانے والی ہے وہ فراز کے ہاں فارسی کا تڑکا ہے یہی بات انہوں نے فیض سے لی۔ ویسے تو انہوں نے دھیما انقلابی لہجہ بھی فیض صاحب سے لیا اور اہل سخن اس بات سے بخوبی واقف ہیں۔ ایک اور بات نے، جس کا باعث ان کا کلام اور قدرت کی ودیعت کردہ سحر انگیزشخصیت ہے۔ شعر میں برجستگی شوخی اور بانکیں داخلی سطح پر آتا ہے اور معروضی صورت حال میں جنرل نالج اور دوسرا مطالعہ ہے: ذکر چھڑتا ہے جب اس غیرت مریم کا فراز گھنٹیاں بجتی ہیں لفظوں کے کلیسائوں میں ان کی نظموںمیں بھی کمال ان کی مصرع سازی کا ہے ۔ تراش خراش دہی غزل والی ہے۔ آپ ان کی لازوال نظم محاصرہ دیکھ سکتے ہیں۔ جو کہ آمریت اور جبر کے خلاف ہے۔ اس کے بارے میں فراز کہا کرتے تھے کہ نہ تو ملک کے حالات بدلتے ہیں اور نہ یہ نظم پرانی ہوتی ہے۔ مگر میرا یہ موضوع بحث نہیں۔ یہ الگ کالم کا موضوع ہے فراز صاحب بھر پور زندگی گزار گئے۔ان کے ساتھ ہم نے بہت مشاعرے پڑھے گپ شپ بھی کی ،خاص طور پر اسلام آباد جانا ہوتا تو محبوب ظفر کوئی تقریب رکھ لیتے کہ محبوب ظفر ہی ان کے سب سے زیادہ قریب رہے۔ جب ہم ناروے کے شہر اوسلو گئے تو وہ وہاں ہمارے ہی کمرے میں ٹھہرے ۔جمشید مسرور ہمارے میزبان تھے۔وہاں تو ان سے کئی مزے مزے کے واقعات بھی سنے۔ مجھے فجر کی نماز پڑھتے دیکھ کر پوچھنے لگے کہ یہ صبح پانچ بجے تم کون سی نماز پڑھتے ہو؟میں نے کہا ’’سر فجر کی‘‘ فرمانے لگے یار یہاں تو ڈیڑھ بجے سورج نکلتا ہے۔ میں آج بھی سوچتا ہوں کہ میری نماز کے حوالے سے انہوں نے رہنمائی کی۔ بڑے پیار سے کہتے چلو سعد چائے بنا کر لائو۔ انور مسعود شعیب بن عزیز اور خالد شریف بھی ہمارے ساتھ تھے۔ ان کے ہاں شگفتگی اور برجستگی بہت زیادہ تھی۔وہ چین گئے تو ایک کیفے پر بیٹھے ہوئے کسی دوست نے چینی مانگی تو کہنے لگے کہ یہاں سے ایک آدھ چینی پکڑ کر چائے میں ڈال لو۔ وہ احمد ندیم قاسمی کا بے حد احترام کرتے تھے جم خانہ میں جب ان کے ساتھ شام منائی گئی تو احمد ندیم قاسمی ہی کی صدارت تھی۔ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ فراز صاحب سیف الدین سیف کو باقاعدہ اپنا استاد مانتے تھے۔ ان کے جنازے پر بھی وہ آئے۔ایک تقریب میں شبی الماس‘ ڈاکٹر خالدہ‘ نسیم اختر ‘ شہزاد ذوالقرنین لاہور سے تھے اور اسلام آباد سے ثمینہ راجا اور دوسرے کئی اہم شاعر، اس دن فراز صاحب سے دل کھول کر گپ شپ ہوئی۔ شاعرات نے باقاعدہ فراز صاحب کی غزلیں سازوں کے بغیر گائیں۔ کیسے دن تھے! اور فراز چاہئیں کتنی محبتیں تجھے مائوں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا