پاکستانی جمہوریت کی حالت اس ضعیف بڑھیا کی سی ہے جو دن بھر چرخہ کاتتی ہے اور شام پڑے‘ ادھیڑ دیتی ہے۔ گو پاکستانی جمہوریت مغربی نظام ریاست کی آئینہ دار ہے اور مغربی جمہوریت کی بنیاد عوامی حکومت‘ عوام کے ذریعے اور عوام کے لئے ہے جبکہ پاکستانی جمہوریت عوام سے دور‘ خواص کے ذریعے اور خواص کے ذریعے اور خواص کے لئے ہے عوام روز بروز ابتری اور بدحالی کا شکار ہو رہے ہیں فی الحال ان کے درج کا کوئی درماں نہیں۔پاکستانی جمہوریت مغربی نظام جمہوریت کی خامی اور بدصورتی کا مظہر بن کر رہ گئی ہیِِ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت فوجی آمریت کا ملغوبہ یا کچومر سلاد ہیِ جس میں کوئی صورت اپنی اصل میں موجود نہیں ہے اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ہر ملک کا نظام قومی مفاد اور ہمسایہ ریاستوں کے ساتھ دوستانہ یا معاندانہ تعلقات پر استوار ہونا چاہیے بدقسمتی سے پاکستانی جمہوریت اور آمریت ذاتی مفادات کا کھلونہ بن گئی ہے جس میں جدھر دیکھتا ہوں‘اوپر میں‘ہی میں ہوں۔حالت یہ ہو گئی ہے کہ ہر لیڈر گھرانہ پارٹی اور ادارہ خود کو درست محب وطن اور دوسرے کو غلط بلکہ غدار کہتا پھرتا ہے جبکہ غداری قومی اور عالمی مفادات کے درمیان مہین موج اور لہر کا نام ہیِ جو 16دسمبر 1971ء کے سوا کبھی ساحل کو نہ چھو سکی بکہ اس عالمی و علاقائی موج نے اپنا اپنا جداگانہ ساحل آباد کر رکھا مگر 14اگست 1947ء کی عوامی‘ قومی اور ملی روایت کو غلط ثابت نہیں ہونے دیا۔ پاکستانی سیاست‘جمہوریت اور آمریت کا طرفہ تماشا یہ ہے کہ مقتدر اشرافیہ سمیت سب ایک دوسرے کے لاڈلے ہیں۔کجا ڈھیروں لاڈلے میدان عمل میں سرگرم ہوں۔ہر لاڈلا پنجابی کا رانجھا بن کر کہتا پھرتا ہے کہ ساری گلیاں ہوون سونجھیاں تے وچ مرزا یار پھرے‘ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سب ایک دوسرے کی گھات میں بیٹھے ہیں حتیٰ کہ طاقتور ترین فرد اور لیڈر بھی اپنی اپنی گھات میں ہے اس گھات بازی نے ریاست اور عوام کو یتیم اور لاوارث کر دیا ہے اس پر مستزاد یہ ہے کہ ہر فرد لیڈر اور پارٹی کا اپنا جداگانہ مفاد ہے۔جس کے حصول کے لئے عالمی مفاد کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ ریاستی اداروں کی عام سیل لگی ہوئی ہے خود انحصاری کی جگہ عالمی اداروں پر انحصار بڑھ گیا ہے۔حتیٰ کہ کھیل میں پاکستان ذاتی انا اور مفاد نے سب کو عالمی حلیف بنا رکھا ہے۔میر جعفر اور میر صادق کا المیہ یہ تھا کہ وہ اپنوں کو نظر انداز کر کے غیروں کی آنکھ کا تارا بن گئے تھے جو اپنوں کا نہیں اس پر غیر بھی بھروسہ اور اعتماد کیوں کریں؟بد اعتمادی کا میدان لگا ہوا ہے اور اس عدم اعتماد اور عدم برداشت نے عالمی ضامنوں کی تجوری بھی عالمی مالیاتی ادارے کے سپرد کر دی گئی ہے جس کے بعد مقتدر ترین اشرافیہ اور سارے لاڈلے عالمی مفاد کے اسیر ہو کر رہ گئے ہیں کۃ چاند ماری چمکا رکھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی عوام نے بنایا اور خواص نے برباد کیا۔پاکستان کا قیام عالمی طاقتوں اور اداروں سے نجات کا نشان ہے مگر یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ تحریک کے پرعزم عوام نے ایسے ایمان‘ اتحاد اور تنظیم کے ذریعے عالمی اور علاقائی طاقتوں مثلاً برطانیہ اور ہندو کانگرس کے خلاف لازوال جدوجہد سے ریاست حاصل کی مگر آج عالمی اتحادی طاقتیں اور ادارے پاکستانی ریاست کا نظام اور انتظام اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔پاکستان عالمی سیاست کا مرکز اور تجارت کی عالمی راہداری ہے۔لہٰذا عالمی اور علاقائی طاقتیں پاکستانی ریاست کا نظام اور انتظام اپنی گرفت میں رکھنے کے خواہاں ہیں۔جبکہ پاکستان کی نظریاتی و روحانی اساس کو عوام کے دل و دماغ سے محو کرنا آسان نہیں۔ آج پاکستان کی سیاست‘ جمہوریت اور آمریت ایک چوراہے پر کھڑی ہے۔ہر فریق جداگانہ گھات لگا کر بیٹھا ہے۔Absolutely Notہو یا امپورٹڈ حکومت‘ نیوٹرلز ہوں یا لاڈلے ہوں سب کی ڈور عالمی گرفت میں ہے ذاتی مفاد اور انا نے جداگانہ رنگ اور آہنگ کو جنم دے رکھا ہے‘جبکہ عوامی سطح پر نظریاتی دھارے اور موجیں بھی موجود ہیں۔مگر عملاً بے معنی اور بے ثمر ہیںِِنوازی اور شہبازی عوام کے لئے نظریاتی سہارا تھے جو اب نہیں رہے کیونکہ ہوس اقتدار نے سب کو ایک کر دیا ہے۔ایمان تقویٰ اور جہاد بھی عالمی موجوں میں بہہ چکا ہے آج ایمان‘ اتحاد‘ تنظیم باقی ہے اور نہ ایمان‘ تقویٰ اور جہاد بچا ہے۔ آج معاشی و معاشرتی ابتری کے ساتھ سیاسی نفاذ کا یہ عالم ہے کہ سب کی چابی زرداری صاحب کے ہاتھ میں ہے اور آج سب کچھ شہبازی نوازشات کے ساتھ زرداری کے پیروں یا پائوں تلے ہے۔نقطہ المیہ یہ ہے کہ نیوٹرلز نے موجودہ اہتمام کا انتظام زرداری صاحب کے حوالہ کیا۔زرداری صاحب کی نظر عام الیکشن میں مطلوبہ نتائج پر ہے اور وہ اگلے عام الیکشن میں پنجاب میں مناسب حد تک سیٹیں نشستیں اور کامیاب نمائندگی چاہتے ہیں جو شہبازی نوازشات کے بغیر ناممکن ہے۔ زرداری صاحب کا دوسرا ہدف بلاول زرداری کو وزارت عظمیٰ کو حتمی بنانا ہے جبکہ قومی و عالمی مقتدر اشرافیہ کی پہلی ترجیح نیازی ہے جس کو اپنوں کے خلاف بولنے کی اجازت بھی ہے نیز اس کے فکر و عمل کی تہی دامنی کا یہ عالم ہے کہ وہ مغربی جمہوری نظام کے ذریعے ریاست مدینہ بنانے چلا ہے۔جبکہ زرداری صاحب کو اس کے جھوٹے بیانات کی بھی حاجت نہیں۔ دونوں لیڈروں کی لڑائی میں اقتدار کی کرسی پہلے جھگڑا ہے کون جیتے گا ‘ کون ہارے گا‘ اس کا فیصلہ قبل از وقت مشکل ہے کیونکہ اقتدار کا نشہ سب کچھ کر سکتا ہے۔انہیں شیواجی اور ڈکلائیو اور رنجیت سنگھ کا حلیف بھی بنا سکتا ہے۔البتہ موجودہ حالت زار میں ایک بات واضح ہے کہ زرداری صاحب نومبر کے بعد عام الیکشن کرانا چاہتے ہیں نیازی اور مقتدر کھلاڑی نومبر سے پہلے الیکشن کرانا چاہتے ہیں فیصلہ وقت بتائے گا۔ البتہ نومبر کے بعد الیکشن کا انعقاد زرداری صاحب کو ’’وارا‘‘ کھاتا ہے دریں صورت زرداری صاحب اپنی مرضی کا ہمنوا مقتدر اشرافیہ کو لانے میں کامیاب ہو جائیں جو بلاول کی وزارت عظمیٰ کی مضبوط راہداری بن سکتی ہے۔نیازی صاحب بھی کم نہیں ہیں دونوں انا کے مریض ہیں انائوں کا مفاد اور فساد سب کو لے ڈوبے گا۔اللہ دین وطن اور مسلمانوں کی حفاظت فرمائے نیز پاکستان اور مسلمان عوام کو ممکنہ فسادی ہوائو ہوس سے محفوظ رکھے۔ یہ اوپر کا طبقہ خلا ہی خلا ہے ہوائو ہوس کے غبارے چلاچل زرداری سب سے بھاری ایک حقیقت ہے اور اللہ حد سے گزرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے۔اللہ سے دعا ہے کہ پاکستان کو سقوط ڈھاکہ اور سری لنکا کے منظر سے بچائے۔ ٭٭٭٭