وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان نگران وزیر اعظم کے نام پرتاحال اتفاق نہ ہونے پر غیر یقینی پن بدستور موجود ہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کے درمیان اس سلسلے میں کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ اب تک عبداللہ حسین ہارون‘ ڈاکٹر شمشاد اختر‘ ملیحہ لودھی ‘ تصدق حسین جیلانی‘ ڈاکٹر عشرت حسین ‘ عبدالرزاق دائود‘ جلیل عباس جیلانی اور ذکاء اشرف کے نام مختلف جماعتوں کی طرف سے سامنے آئے ہیں۔ تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی کے پیش کردہ ذکاء اشرف کے نام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پارٹی کے رکن ہیں اس لیے انہیں نگران وزیر اعظم نہیں بنایا جا سکتا۔ بلا شبہ نگران وزیر اعظم کا تقرر ایک آئینی ضرورت ہے جس کو پورا کرنے کے لیے آئینی طریقہ کار اختیار کیا جانا چاہیے ۔ملک میں جب تک دو جماعتوں کا عمل دخل رہا اس وقت تک حکومت اور اپوزیشن لیڈر کے مابین مختلف آئینی عہدوں پر تقرری کے لیے مشاورت ایک مناسب طریقہ کار تھا مگر تحریک انصاف کی شکل میں اب ایک تیسری بڑی جماعت موجود ہے اس لیے اپوزیشن کی طرف سے نگران وزیر اعظم کے لیے نام پیش کرتے وقت پی ٹی آئی کے ناموں پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔ اس سے بکھری ہوئی اپوزیشن میں باہمی تعاون کی فضا پیدا ہو گی اور ساتھ ہی سیاسی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کی رائے کو سننے اور اس کے احترام کی روائت مضبوط ہو گی۔ اس وقت سیاسی جماعتوں کے باہمی تعلقات سیاسی اختلافات سے زیادہ ذاتی دشمنی کے مماثل نظر آ رہے ہیں۔ بلا شبہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی طرف سے ریاستی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی اور ن لیگی رہنمائوں کی فوج اور عدلیہ کے خلاف غیر ضروری اشتعال انگیز گفتگو نے سیاست کو تلخ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کر کے رخصت ہونے کو ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ مسلسل دوسری جمہوری حکومت اپنی مدت مکمل کر رہی ہے۔ ایسے وقت میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ماحول میں گھلے زہریلے بیانات کا سلسلہ روکا جائے۔ عام انتخابات میں مختلف قسم کی گروہ بندیاں شدت پکڑ لیتی ہیں۔ انتخابات میں کئی لوگ سیاسی عداوت کے ہاتھوں جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ مسلم لیگ ن‘ تحریک انصاف‘ پیپلز پارٹی‘ جمعیت علمائے اسلام اور دیگر جماعتوں نے سیاسی درجہ حرارت کو کم نہ کیا تو انتخابی مہم جھگڑوں اور تصادم کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ سیاسی معاملات میں اختلافات کی آنچ کم کرنے سے پرامن انتخابات کے لیے ماحول ساز گار ہوتا چلا جائے گا۔ حکومت کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے نگران وزیر اعظم کا پہلا فرض ملک میں عام انتخابات کو شفاف اور آزادانہ ماحول میں کرانا ہے۔ گزشتہ متعدد انتخابات میں دھاندلی کی شکایات رہیں۔2013ء کے انتخابات میں منظم اور غیر منظم دونوں طرح سے انتخابی دھاندلی کے الزامات کا سامنا مسلم لیگی حکومت کو کرنا پڑا۔ تحریک انصاف نے انتخابات کے کچھ عرصہ بعد ہی دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ حکومت نے جب اس مطالبے کو نظر انداز کیا تو تحریک انصاف نے پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے 126روز تک دھرنا دیا۔ دھرنے کے اختتام پر چار حلقوں میں ووٹوں کی پڑتال اور ملک میں انتخابی اصلاحات پر اتفاق کیا گیا۔ تین حلقوں کی پڑتال میں بدانتظامی اور دھاندلی کی شکایات سچ ثابت ہوئیں۔ سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف کے حلقہ میں ووٹنگ پر تحریک انصاف کے اعتراضات عدالت نے مسترد کر دیے۔ لاہور میں وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے خلاف فیصلہ آیا مگر یہ معاملہ تاحال اپیل کی صورت میں عدالت میں ہے۔ لودھراں میں جہانگیر ترین کی درخواست پر ووٹوں کی پڑتال ہوئی اور عدالت نے جہانگیر ترین کا موقف درست تسلیم کیا۔ لاہور میں سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے حلقہ میں دوبارہ انتخابات کا حکم دیا گیا۔ ان حلقوں کے ووٹوں کی پڑتال کے دوران ثابت ہوا کہ انتخابی ضابطوں اور انتظامات میں ایسے کئی نقائص ہیں جو ووٹ کی حرمت پامال کرنے کا باعث بنتے ہیں لہٰذا ایسی انتخابی اصلاحات متعارف کروانا ضروری ہیں جن کی مدد سے امیدواروں کی اہلیت‘ ووٹنگ کا عمل‘ الیکشن کمشن کو با اختیار بنانا اور انتخابی نتائج پر سب کا اعتماد بحال کیا جا سکے۔ پارلیمنٹ سے انتخابی اصلاحات بل 2017ء کی منظوری کے بعد معلوم ہوا کہ ووٹنگ مشینوں کے استعمال اور تارکین وطن کو ووٹ کے حق کے امور اس میں شامل نہیں کئے گئے۔ ان معاملات پر بعدازاں سپریم کورٹ نے الگ سے رہنمائی فرمائی اور حکومت نے تارکین وطن کے لیے ووٹنگ کا طریقہ کار تلاش کرنے کا وعدہ کیا۔ نگران وزیر اعظم کو یوں تو ملک کے عمومی معاملات کا اختیار ہو گا‘ تاہم سب سے زیادہ الیکشن کمشن سے متعلق معاملات ان کی مصروفیات کا حصہ رہیں گے۔ جسے اس بار آئین کی شق62اور 63پر پورا اترنے والے امیدواروں کو انتخابی سرگرمیوں کے لیے اہل قرار دینے کا چیلنج درپیش ہے۔ وطن عزیز میں یہ روش خاصی قدیم ہے کہ برسر اقتدار جماعت نگران حکومت کی تشکیل میں اپنا حصہ زیادہ رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کی وجہ انتخابی عمل پر اثر انداز ہونا ہے۔ دنیا میں ایسے کئی ممالک ہیں جہاں پارلیمانی جمہوریت موجود ہے اور آئینی مدت پوری ہونے پر نگران حکومت قائم نہیں کی جاتی بلکہ جمہوری روایات اتنی مستحکم‘ شفاف اور دیانتداری پر مبنی ہوتی ہیں کہ پہلی حکومت کی طرف سے ہونے والے انتخابی انتظامات پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہمسائے میں بھارت اور ایران میں نگران حکومت نہیں آتی۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں تجربہ کار ہو چکی ہیں مگر ہمارے ہاں جمہوری ادارے ابھی تک عوام کا مکمل اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یقینا سیاسی جماعتیں بلوغت کا وہ مظاہرہ ابھی تک نہیں کر سکیں جس کی ان سے توقع کی جا رہی تھی۔ نگران وزیر اعظم کی تقرری ایک آئینی ضرورت ہے مگر آئین عمومی شرائط بتانے کے بعد اس معاملے پر خاموش ہے کہ نگران وزیر اعظم کی اہلیت کیا ہو۔ نگران حکومت کے پیش نظر طویل المدتی حکمت عملی نہیں ہوتی اسے تو بس تین ماہ کے اندر انتخابات کروا کر معاملات نئی حکومت کے سپرد کرنا ہوتے ہیں۔ اس کام کے لیے ایسے فرد پر اعتماد کیا جا سکتا ہے جس کی ریاست سے وفاداری پر انگلی نہ اٹھائی جا سکے۔ جس کی غیر جانبداری پر شک نہ کیا جا سکتا ہو‘ جو انتخابی اور مالیاتی معاملات کو تکنیکی سطح پر سمجھتا ہو۔ نگران وزیر اعظم کے لیے پیش کردہ زیادہ تر نام اس معیار پر پورا نہیں اترتے۔ حکومت اور اپوزیشن کو من پسند شخصیت ڈھونڈنے کی بجائے مذکورہ بالا معیارات پر پورا اترنے والی شخصیت تلاش کرنا چاہیے۔جماعتی اور خاندانی مفادات سے چمٹے رہنے کی صورت میں اتفاق رائے مشکل ہو جاتا ہے۔