افغانستان سے بیرونی افواج کے انخلا کو طالبان نے اپنی فتح کہا ہے تو کچھ غلط بھی نہیں کہا ہے۔ پورے بیس سال وہ بے سروسامانی میں ڈٹے رہے اور وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے دشمن سے علاقے واپس لیے۔ امریکہ، نے یہ جنگ شروع کی تھی کسی اور نے نہیں۔ طالبان نے تو اسے اپنی افواج اور اثاثے نکالنے کا راستہ دیا۔ انہوں نے ہمسایہ ممالک سے کچھ وعدے ضرور کیے ہیں لیکن ابھی تک یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے اپنی نسلی و قبائلی عصبیت رویوں پر بھی قابو پالیا ہے۔ طالبان کی اصل جنگ کسی سے ہے تو وہ افغان حکومت ہے جس نے بقول انکے دشمن طاقتوں سے مل کر اپنے ہی لوگوں کی آزادیاں چھینیں اور ان پر ستم کے پہاڑ توڑے۔ بیرونی فوجی حمایت سے محروم ہونے کے بعد یہ حکومت گوڈوں کے بل آگئی ہے۔ طالبان اس صورتحال کا فائدہ اٹھارہے ہیں۔ انہوں نے پشتون علاقوں میں ، جو ملکی رقبے کا پچاس فیصد کے لگ بھگ بنتا ہے، دیہی علاقے اپنے قبضے میں کرلیے ہیں اور ضلعی مراکز پر دباو بڑھا دیا ہے۔ ایران، وسط ایشیا اور پاکستان کے ساتھ کراسنگ پوائٹنس پر انکا قبضہ ہے لیکن پورے چونتیس صوبوں میں سے ایک پر بھی انکا کوء اختیار نہیں۔ طالبان صوبائی دارلحکومتوں سے نہ صرف دور رہنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں بلکہ کابل کی طرف پیش قدمی کرنے کا بھی ان کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں۔ یوں وسوسوں اور اندیشوں میں گھری افغان حکومت اس وقت حواس باختہ نظر آرہی ہے لیکن طالبان مطمئن۔ انکی قیادت کو یقین ہے کہ ایک دن حکومت ان کی جھولی میں ضرور آگرے گی۔ جنگ کرنے کی پوزیشن میں وہ نہیں ہیں ، مکمل فتح ملنے تک کیا حالات بنیں، ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ طالبان نے امریکہ کو بحفاظت جانے دیا ہے اس یقین دہائی کے ساتھ کہ آئندہ القائدہ یا اس قماش کی کوئی بھی دہشت گرد نظیم افغان سرزمین پر نہیں ٹک پائیگی۔ روس، چین، ایران اور پاکستان سے بھی انہوں نے کچھ ایسے ہی وعدے کیے ہیں۔ اگر وہ ان ہمسائیوں کے تحفظات کا خیال رکھتے ہیں اور اس کے بدلے میں انہیں اپنی بقا کے ضمانت ملتی ہے تو فی الحال ان کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ بین الاقوامی سازشوں کو سلجھانے کے لیے روس اور چین کافی ہیں۔ اگر طالبان نے جہاد ایکسورٹ کرنا بھی تھا تو اب ہمسائیوں کے کہنے پر وہ نہیں کریں گے۔ تجارت کے وہ پہلے بھی خلاف نہیں تھے۔ افغانستان کے اور ذرائع آمدن تو ہیں نہیں۔ خوراک اور اشیائے ضرورت کی فراہمی کے لیے دنیا بھر کا محتاج ہے۔ ہاں اگر امن ہو تو تجارتی راہداری کے طور پر استعمال ہوسکتا ہے۔ وسط ایشیا سے جنوبی ایشیا کے درمیان پائپ لائن بچھائی جاسکتی ہے۔ تجارت کے لیے ریلوے لائنیں اور شاہراہیں تعمیر کی جاسکتی ہیں۔ یوں طالبان بد امنی کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں تو اس کا سیدھا سا مطلب ملکی محصولات میں اضافہ ہے۔ اس طرح طالبان کا وجود ملکی مفاد میں ہی نہیں بلکہ ہمسایہ ممالک کے لیے بھی باعث خیرو برکت ہوسکتا ہے۔ طالبان کے مذہبی عقائد اور نسلی عصبیت بھی اپنی جگہ پر مو جود ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اب وہ سمجھوتے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ مطلب،وہ سیاست کرنا جان گئے ہیں۔ قومی مفاد میں اگر کچھ معاملات موخر کر دیے جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دنیا کا ان پر شک کچھ عرصہ برقرار رہے اور ان سے توقع کی جائے کہ وہ حکومت سے اپنے تعلقات بہتر کریں۔ فریق باہمی رضامندی کے ساتھ اپنے اپنے دائرے میں محدود رہیں۔ ترکی جیسا ملک کابل ائر پورٹ کی حفاظت کا ذمہ لے لے اور افغان حکومت کے لیے بیرونی امداد کا راستہ کھول دے تو اب طالبان ترکی کے ساتھ لڑنے کو تھوڑا نکل پڑیں گے! یہاں بھی وہ بقائے باہمی کے جذبے کے تحت سمجھوتے کو ترجیح دیں گے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ طالبان کوحکومت پر قبضہ کرنے کی کوئی جلدی نہیں ہے اور نہ ہی دنیا اسے ایسا کرنے دیگی۔ جس بات پر وہ مطمئن ہیں وہ یہ ہے کہ انکا آج گزرے کل سے بہتر ہے اور انہیں اپنا مستقبل روشن نظر آرہا ہے۔ انہیں پتہ ہے کہ وہ ملکی سیاست میں ہی اہم نہیں بلکہ ایک پر امن افغانستان کے لیے پوری دنیا کو ان کی ضرورت ہے۔ ہمارے وہ دوست جو سرزمین ِپاکستان پر رہتے ہوئے طالبان کی افغانستان میں حاصل کی گئی کامیابیوں پر بغلیں بجارہے ہیں اور ہمیں قسمیں اٹھاکر بتا رہے ہیں کہ اب طالبان پہلے جیسے نہیں رہے، ہم ان سے درخواست کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے ' اصلی' جذبات کی رو میں بہنے کی بجائے زمینی حقائق کی روشنی میں بات کریں تو اچھا ہے۔ بیس سال کی سخت اور تھکا دینے والی جنگ ، جانی و مالی نقصانات اور عالمی تنہائی نے طالبان کو عملیت پسندی سکھا دی ہے تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔ایک تو ماضی میں ان کاطرز عمل اور دوسرے مخصوص عالمی سیاست میں ہونے والی نئے سرے سے صف بندی ۔ کچھ عرصہ حالات جوں کے توں رہیں تو اس میں بھی طالبان کا بھلا ہے۔یہ بات طالبان اور انکے حامی دونوں ذہن نشین کرلیں کہ اسلحے کے زور پر افغانستان کو کسی ایک سمت نہیں ہانکا جاسکتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ طالبان ایک مضوط سیاسی پارٹی کے طور پر اپنے آپ کو منو ا لیں جو مخصوص نسل وزبان کے لوگوں کی حمایت ہی حاصل کر سکے اور اقتدار میں حصہ بقدر حصہ پر ہی اکتفا کرلے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سیاسی عمل کا حصہ بننے کے بعد ان کا معاملہ ادھر ڈوبے، ادھر نکلنے والا رہے۔ آخر سیاست ہے ، ایسا ہوتا رہتا ہے۔ قصہ مختصر ، انہیں قومی دھارے میں شریک ہونے کے لیے ایک نہ ایک دن ہتھیار ڈالنا پڑیں گے۔اس وقت جب حالات غیر یقینی ہیں ، جلد بازی طالبان کو ہی نہیں پورے ملک کو نئے طوفانوں کے حوالے کردے گی۔ امریکی انخلا کے تناظر میں دنیا کی توجہ جتنی افغانستان پر مرکوز ہوچکی ہے اور جن اندیشوں کے تناظر میں ہمسائے ان سے مذاکرات کر رہے ہیں ، طالبان انہیں غنیمت جانیں۔ انکی طرف سے جلد بازی میں اٹھایا گیا کوئی قدم پورے خطے کے لیے مسائل پیدا کرسکتا ہے اور اس کا سب زیادہ نقصان پاکستان کو ہوگا۔