محفل سے اٹھ نہ جائیں کہیں خامشی کے ساتھ ہم سے نہ کوئی بات کرے بے رخی کے ساتھ اپنا تو اصل زر سے بھی نقصان بڑھ گیا سچ مچ کا عشق مر گیا اک دل لگی کے ساتھ معزز و محترم قارئین:ڈاکٹر نے سیاسی تحریر سے پرہیز بتایا ہے اس لئے آج ذرا چٹ پٹی اور کٹھی میٹھی باتیں ہونگی مگر یہ دانشمندی کی جھلکیاں ہونگی جنہیں Intellectual flashes کہتے ہیں۔ مگر سیاست میں بھی یہ دلچسپ مرحلہ آیا ہے کہ بغاوت کیس میں ن لیگی رہنما خود گرفتاری دینے کے لئے شاہدرہ تھانہ پہنچ گئے اور پولیس انہیں گرفتار کرنے سے انکاری ہے۔ مجھے معاً عرفان صدیقی کا شعر یاد آ گیا: توڑ دی اس نے تو زنجیر ہی دلداری کی اور تشہیر کرو اپنی گرفتاری کی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ حکومت کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ جلدی میں اکثر یہی ہوتا ہے کہ بندہ بعد میں سوچتا ہے۔کسی سیانے نے انہیں بتا دیا کہ آپ نے تو زیرو کو ہیرو بنا دیا۔ وہ لوگ جن پر چوری اور ڈاکے کے شرمناک کیس تھے آپ نے ان پر بغاوت اور غداری کے مقدمات بنا کر انہیں سیاسی انتقام کا رنگ دینے کا موقع فراہم کر دیا۔ پھر بدر رشید بھی تحفظ مانگ رہا ہے حالانکہ حافظ حسین احمد نے مذاق سے اسے خلائی درخواست کنندہ کہا تھا۔اس سیاسی غلطی نے اپوزیشن کو سچ مچ شیرکردیا ہے اور وہ دھڑلے سے کہہ رہے ہیں کہ عمران خاں میں اگر جرأت ہے تو اپنے نام سے مقدمہ کرے یا پھر اب انہیں گرفتار کروائے۔ اب خان صاحب بھی اس مقدمے سے لاتعلقی کا اظہار فرما رہے ہیں۔ یہ مسئلہ میڈیا کے لئے تو گرم کیک ہے: کم ہونگے اس بساط پہ ہم سے قمار باز جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے دوسری جانب مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز کی ملاقاتیں بھی جاری ہیں اور وہ تحریک کو مرحلہ وار چلانے کے لئے پرعزم ہیں اور دوسریعزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف کو بذریعہ ا شتہار طلب کیا گیا ہے۔ تیسری طرف عثمان بزدار صاحب کہتے ہیں کہ اپوزیشن کو عوام کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔غالباً وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اپوزیشن ان مسائل کی بات کرے جو حکومت نے عوام کے لئے پیدا کر دیے ہیں یا پھر اپوزیشن ان مسائل کو حل کرنے کے لئے حکومت کی مدد کرے۔ الٹا اپوزیشن حکومت کے لئے مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے حکومت اپنے لئے آپ ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے و۔ہ اپوزشن کو خود ہی قریب نہیں آنے دیتی ،شبلی فراز صاحب مزید کمال کی بات کر رہے ہیں کہ مہنگائی کے سوا باقی سارے معاشی اشاریے مثبت ہیں۔آپ اس ماہرانہ بات سے عوام کے پیٹ نہیں بھر سکتے ان کے پیٹ میں روٹی جائے گی تو آپ کے منفی اشارے بھی مثبت ہو جائیں گے: پنج رکن اسلام دے تے چھیوا فریداٹک جے نہ ہووے چھیواں تے پنجے ای جاند مک چلیے اب اپنے وعدے کے مطابق کچھ مزیدار باتیں کرتے ہیں۔ ایک زمانے میں ہمارے بزرگ دوست امیر نواز خان نیازی ایسی خبروں کی چاٹ بنایا کرتے تھے۔ آج علی الصبح درس کے بعد قہوے کے ساتھ میٹھے پکوڑے تھے جو گول گول ہوتے ہیں۔پتہ چلا کہ انہوں نے وعدہ تو اندرسوں کا کیا تھا مگر مہنگائی کے باعث پکوڑے ہی دستیاب ہو سکے۔مزے کی بات شفیق ملک صاحب نے بتائی کہ ان سے کسی نے پوچھا کہ قصور کی ایک دکان کے باہر بورڈ پر لکھا تھا گلاب جامن، اندر سے میٹھے پکوڑے، آخر یہ کیسی گلاب جامن ہے جس کے اندر سے میٹھے پکوڑے نکلتے ہیں۔ پتہ چلا کہ اصل میں وہ لکھا ہوا تھا’’ گلاب جامن‘ اندر سے میٹھے پکوڑے‘‘ لکھنا فن ہے تو پڑھنا بھی فن ہے۔ مجھے پرانی بات یاد آ گئی کہ بیٹی نے اپنے باپ سے پوچھا کہ یہ خبر تو اخبار میں نہیں چھپنی چاہیے تھی کہ بازار میں بڑھیا کو’’ الٹی‘‘ آ گئی۔باپ نے حیران ہو کر اخبار دیکھا تو وہاں اشتہار تھا بازار میں بڑھیا’’ کوالٹی‘‘ آ گئی۔ ہم دعا لکھتے رہے وہ دغا پڑھتے رہے ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم کر دیا بس یہی نکتہ تو حکومت کی سمجھ میں نہیں آیا کہ مقدمہ گلے پڑ گیا اور پھر سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ آزاد کشمیر کے صدر کو بھی رگڑ دیا تو معاملہ بہت حساس ہو گیا ،اہل فکر کو اس طرف غور کرنا چاہیے۔ دلچسپ خبروں میں ایک نہایت سنجیدہ خبر بھی ہے کہ کیمیا کا نوبل انعام دو خواتین سائنس دانوں کو دیا جا رہا ہے اور یہ پہلی بار ہو رہا ہے، پتہ یہ چلا ہے کہ انہوں جینز ایڈیٹنگ تکنیکایجاد کی ہے سادہ اور عام لفظوںمیں وہ ڈی این اے میں چھیڑ چھاڑ کرنے کا عندیہ دے چکی ہیں ایمانوئل جینیفر کے مطابق آپ ڈی این اے میں ادل بدل یا تبدیلی کر سکتے ہیں۔میں سوچتا رہا کہ یہ کیسی تبدیلی ہو گی یہ ایسی تبدیلی نہیں جو پی ٹی آئی لے کر آئی ہے، یا پھر ایسی ہی ہو گی کہ لوگ سوچتے کچھ رہتے آرزوئیں کچھ کرتے رہے اور تبدیلی ان کی توقعات کے برعکس ہوتی۔یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ڈی این اے میں گڑ بڑ کر کے کسی کو چوہا تو کسی کو شیر بنا دیا جائے ۔یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ ان سائنس دانوں نے ہمارے ساتھ کیا کرتا ہے یہ ایٹم بن تباہی کے لئے کیا کم تھا کہ اب ڈی این اے تک بات آن پہنچی ہے۔محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔ ایسا بھی نہ ہو کہ ڈی این اے کی تبدیلی سے لڑکے ہی لڑکے پیدا ہونے ہو جائیں اوصنف مخالف مفقود ہو جائے۔ ایک اور دلچسپ خبر بھی ہے کہ 59میں 57رنگ گورا کرنے والی کریمیں جلد کے لئے انتہائی مضر ہیں۔ یہ بات بھی کسی عام آدمی نے نہیں بلکہ زرتاج گل صاحبہ نے کی ہے۔ اب ہو گا کیا خواتین کریموں کا استعمال بند نہیں کریں گی مگر زرتاج گل سے ان دو کریموں پر استفسار کریںگی، انسٹھ میں سے دو وہ کون سی کریمیں ہیں جو مضر صحت نہیں ہیں۔ اور اب آخر میں ایک پر لطف ادبی بات، کہ ہمارے معروف دانشور پروفیسر رشید احمد انگوی نے نکتہ بیان کیا کہ اصل میں ناشکرے کو کافر کہتے ہیں۔ہم تو فوراً ہی اپنی شاعری کی طرف پلٹے کہ ہمارے سارے شعری ورثے میں محبوب کو کافر ہی کہا گیا ہے وہ ہوا کافر تو ہم مسلمان ہو گئے۔واقعتاً محبوب ناشکرا ہی تو ہوتا ہے اپنے عاشق کی فریفتگی اور مرمٹنے پر بھی لب پر انکار ہی رکھتا ہے: رسم دنیا سے بھی آگاہ نہیں وہ کافر ورنہ بیمار سے احوال تو سب پوچھتے ہیں