وطن عزیز میں سیلاب نے جو بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے اور غریب لوگوں کا جس طرح جانی و مالی جو نقصان ہوا ہے اس پر ہر درد دل رکھنے والے انسان کو رونا آتا ہے۔ سیلاب سے تباہی کے مناظر دیکھنے کے بعد اپنے ملک کا انفراسٹرکچر دیکھ کر اور بھی زیادہ دکھ ہوتا ہے کہ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں جس کی اتنی خستہ حالت ہے کہ ہمارے پاس ان آفات سے نمٹنے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کے لئے بیرونی ممالک سے انسان دوست ملکوں،حکومتوں،سماجی تنظیموں اور مخیر حضرات کی جانب سے فراخدلانہ امداد کا سلسلہ جاری ہے جو لائقِ تحسین ہے سوچنا یہ ہے کہ انسانی بنیادوں پر دی جانے والی یہ امداد متاثرین سیلاب تک پہنچتی ہے یا گِدھ ہمیشہ کی طرح کھا جائیں گے۔ ہمارا مشاہدہ یہی ہے کہ قبل ازیں جتنی بھی امداد ملتی رہی ہے اس سے مْردار خوروں کے پیٹ بھرتے رہے ہیں۔ 2010 ء میں آنے والے سیلاب اور 8 اکتوبر 2005ء میں آنے والے قیامت خیز زلزلے کے بعد جو غیر ملکی امداد ملی اس کا زیادہ تر حصہ جیب کْترے کھا گئے جن میں حکمران بیوروکریٹس، سماجی تنظیمیں اور انسانوں کی بھلائی کے نام پر چلنے والی بعض نام نہاد چیریٹیز شخصیات پشامل ہیں۔ آج اگر ہمارے پاس کوئی بتاتے اور حساب و کتاب کرنے والا ہوتا تو پوچھتا کہ بیرون ملک سے کتنی امداد آئی اور کہاں خرچ ہوئی ہے اور اب جو آرہی ہے وہ کتنی امداد آئی اور کون اس کا حساب دے گا۔ میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے حالیہ دورہ پاکستان کے موقع پر اگرچہ یقین دہانی تو کروائی ہے کہ باہر سے آنے والی پائی پائی سیلاب کے متاثرین پر خرچ کی جائے گی لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ شہبازشریف خود کب تک وزیراعظم رہیں گے اور ان پر خود اس حوالے سے کئی سوالیہ نشان ہیں۔ یہاں رفاعی تنظیموں کے نام پر بعض دوکانیں بھی کھلی ہوئی ہیں جو یتیموں غریبوں کے نام پر مال بناتے اور کفن چوری کرتے ہیں۔محب وطن مقتدر قوتوں اور حلقوں سے دست بدستہ اپیل ہے کہ وہ اس امداد کی پائی پائی مستحقین اور متاثرین تک پہنچانے کے عمل کو یقینی بنائیں ۔کوئی ایسا طریقہ کار وضع کریں کہ دینے والے بھی سکون محسوس کریں اور لینے والے بھی اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں۔ حالیہ سیلاب نے جو ہمارے ملک میں تباہی مچائی ہے اس سے محض طفل تسلیاں دے کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہے یا پھر ہماری حکومتوں اور حکمرانوں کی نااہلی خود غرضی اور مفاد پرستی کا نتیجہ ہے۔ ہمیں آج سے 20 سال پہلے بارشوں کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ پانی کی اس نعمت کو محفوظ بنانے کے لئے ڈیم بند اور محفوظ جزیرے تعمیر کرنے چاہیئے تھے تاکہ اللہ کی یہ نعمت ہماری نالائقی کی وجہ سے آج زحمت نہ بنتی۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں دنیا بھر میں آئی ہیں جہاں آفاقی اور سماوی بلاوں کا نزول ہوا ہے جیسا کہ پاکستان میں ہر دوسرے تیسرے سال زلزلوں سیلابوں آندھیوں اور طوفانوں کی آمد و رفت ہوتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ دیگر ممالک کی حکومتیں اور حکمران اپنے ملکوں اپنے اپنے ہموطنوں سے محبت رکھتے ہیں انہوں نے ہزاروں کے حساب سے ڈیم بنارکھے ہیں مضبوط پختہ سڑکیں بنا رکھی ہیں اپنے لوگوں کو بجلی پانی اور صحت کی سہولیات دے رکھی ہیں ان ملکوں میں جب کوئی طوفان آتا ہے زلزلہ یا سیلاب آتا ہے تو تباہی اتنی نہیں ہوتی جتنی ہمارے ملک میں ہوتی ہے چونکہ دیگر ممالک نے اپنے اپنے ملکوں کی طویل المدتی بنیادوں پر منصوبہ بندی کررکھی ہے مثلاً ان ہی دنوں میں ہمارے پڑوس چین میں بھی سیلاب آیا ہے اور بہت بڑے علاقے میں شدید بارشوں کے باعث دریائوں میں طغیانیآئی لیکن وہاں جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا ہے اور چین نے امداد کے لئے دنیا سے اپیل کی دوہائی بھی نہیں دی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی گزشتہ چالیس سال سے حکومت میں ہے۔ جہاں بھٹو کے نام پر سندھیوں سے ووٹ لیے جاتے ہیں لیکن سندھی آج سیلاب میں ڈوب گئے وہ کس طرح بے یارو و مددگار ہیں اللہ بھلا کرے پاک افواج کے جوانوں کا جو سیلاب زدگان کی دن رات مدد کر رہے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ کون نہیں جانتا کہ زرداری خاندان خود امیر ترین ہے انہوں نے خود اپنے اکاونٹس سے کتنی امداد دی۔ بلوچستان میں بھی لوگ بے یارو مددگار تڑپ رہے ہیں اور مکس مصالحوں والی سول صوبائی حکومت کسی جگہ نظر نہیں آتی۔ مجھے سندھ اور بلوچستان سے سیلاب زدگان میں لسبیلہ سے محمد بخش رنجھو ضلع نصیر آباد سے ڈاکٹر منصب علی بلوچ نسرین انصاری لاڑکانہ اور بدین سے کچھ میڈیا کے ساتھیوںاور سیلاب زدگان نے اپروچ کیا اپنے اپنے علاقوں کی ویڈیوز ارسال کیں تو میں نے بڑی مشکل سے جی سی آو حیدر آباد میجر جنرل دلاور خان صاحب اور پھر بلوچستان میں پاک افواج کے افسروں سے رابطہ کرکے اپیل کی تو ان متاثرین کو امداد دی گئی لیکن تباہی بہت زیادہ ہے ایک مشکل اور بھی ہے کہ پنجاب سوات آزاد کشمیر یا خیبرپختونخوا میں ہم زیادہ آسانی سے باہر کے ملکوں سیامداد ارسال کرسکتے ہیں چونکہ ان علاقوں کے لوگ ان ملکوں میں آباد ہیں لیکن اندرون سندھ یا بلوچستان کے لوگ باہر کے ملکوں میں زیادہ موجود نہیں ہیں برطانیہ یورپ امریکہ وغیرہ میں بڑے پیمانے پر لوگ سیلاب زدگان کے لئے پیسہ اکٹھا کررہے ہیں جو پنجاب خیبر پختونخوا میں تو جارہا ہے لیکن جہاں سب سے زیادہ متاثرین ہیں وہ سندھ اور بلوچستان ہے وہاں مستحقین تک امداد پہنچنے کی گارنٹی نہیں ہے ہونا تو یہ چاہئے کہ کوئی بڑا پلان بنے۔ ڈیم تعمیر ہوں اور لوگوں کو پکے گھر تعمیر کرکے دیئے جائیں تاکہ مستقل بنیادوں پر آئندہ بڑی تباہی سے بچایا جاسکے۔ پاک فوج جہاں زلزلوں سیلابوں طوفانوں اور بحرانوں میں خدمتِ خلق کا کام کرتی ہے وہاں کرپٹ حکمرانوں بیورو کریٹوں چوروں ڈکیتوں فراڈیوں کو بھی منطتقی انجام تک پہنچا سکتی ہے اگر یہ قابو میںآ جائیں تو قدرتیآفتیں زحمت کی بجائے رحمت بن سکتی ہیں۔