اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ِمعظم ،نبی ِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چار بیٹیاں عطا فر مائیں۔اگربنظرِغائر دیکھا جائے تو پو ری کا ئنات کی خواتین کے لیے ان بیٹیوں کی سیرت و کردار میں رہنمائی اور نجات کا رستہ مو جود ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صا حبزادیوں میں سب سے بڑی سیدہ زینب ، پھر سیدہ رقیہ ، پھر سیدہ امِ کلثوم سیدہ فاطمۃ الزہرہ سلام اللہ علیھن ہیں ، ذیل میں سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہاکا تذکرہ مستند کتب سے اخذ شدہ پیشِ خدمت ہے ۔ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہ آنگن نبوت میں ایک ایسے پاکیزہ اور معطر پھول کی مانند ہیں جن کے کردار کی خوشبو قیامت تک ہماری روحوں کو معطر کرتی رہے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس لخت جگر نور چشم کو اللہ کریم نے اعلیٰ وارفع اخلاقیات سے نوازا۔ ان کی ولادت باسعادت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلان نبوت سے سات سال پہلے مکہ مکر مہ میں ہوئی، آپ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سے تین سال چھو ٹی ہیں اور سیدہ ام کلثوم ر ضی اللہ عنہا سے ایک سال بڑی ہیں ،آپ کی والدہ محترمہ حضرت سیدۃ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہاہیں ،ان کی ولادت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک 33 برس تھی۔ آپ نے آغو ش نبوت میں پر ورش پائی ،نبی اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان پر بے حد شفقت فرما یا کر تے ،حضرت سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا ان کی پر ورش کیا کر تی تھیں ،آپ نے اعلان نبوت کے فوری بعد اسلام قبول کیا ،حضرت سیدہ خدیجۃالکبر ی رضی اللہ عنہا دونوں بہنوں، حضرت ام کلثوم اور حضرت ر قیہ رضی اللہ عنہما کوحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں لے کر حاضر ہوئیں اور عر ض کیا یارسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو بیعت کر لیجئے ۔ حضرت سید نا عثمان غنی ذوالنورین رضی اللہ عنہ آپ خود بیان فر ما تے ہیں کہ ایک دن میں صحن کعبہ سے اُٹھ کر اپنے گھر گیا تو وہاں پہ میری خالہ سعدی مو جود تھیں جو بہت بڑی کا ہنہ اور کتب سماویہ کی عالمہ تھیں انہوں نے مجھے دیکھتے ہی شعر پڑ ھنے شروع کرد یے جن کا ترجمہ قارئین کی نذر کئے ہے : ’’اے عثمان !اے عثمان !اے عثمان ! آپ کے لیے جمال ہے اور آپ کے لیے عزت وشان ہے اور یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہ ذات ہیں جن کے پاس واضح دلیل (یعنی قرآن پاک ) ہے ،ان پر قرآن پاک کا نزول ہوا ہے اور ادیان میں سب سے حق دین دین اسلام کے ساتھ آپ مبعوث فر ما ئے گئے ہیں اور ساتھ حضرت سعدی یہ کہتی ہیں کہ اے عثمان ! تجھے مبارک ہو تجھے تین بار مبارک ہو پھر تم تین با ر پھر تین بار پھر تین بار پھر ایک مر تبہ یعنی کل دس مر تبہ سلام ہو آپ کو بھلائی حا صل ہوا اور شر سے محفو ظ رہو ،اللہ پاک کی قسم تم نے ایک نہایت ہی پاک دامن عزت مآب عفت و پا کیزہ ہستی سے نکا ح کیا ،وہ بھی غیر شادی شدہ ہے تم بھی کنوارے ہو ،تم نے ایک بہت عظیم المرتبہ شخصیت کی بیٹی سے نکا ح کیا ۔‘‘ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ یہ سن کر حیران ہو ئے اور عرض کیا خالہ جان ذراکھل کر بتا ئو کیا بات ہے تو آپ کی خالہ جان نے فر مایا :بے شک محمد بن عبداللہ صلی للہ علیہ وآلہ وسلم ،اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔اللہ تعالی کی طرف سے قرآن کریم لے کر آئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں اس کا چراغ ہی در اصل چراغ ہے اس کا دین ذریعہ فلاح ہے اس وقت شوروغل کو ئی نفع نہ دیں گا جب قتال و جدال شروع ہو جا ئے گا اور تلواریں سونت لی جا ئیں گی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جب اپنی خالہ کی باتیں سنی تو آپ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے اور اُن سے مشورہ کیا اُن کی ایمان افروز با تیں آپ کے دل میں گھر کر گئی اور آپ بے اختیار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگا ہ میں تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت ہو گئے ۔ (الخصائص الکبری ) جب کفار مکہ نے ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھانے شروع کر دیے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر صحا بہ کرام نے پانچ نبوی میں حبشہ کی طرف ہجرت کی ان میں حضرت سیدۃ رقیہ ر ضی اللہ عنہا اور آپ کے شو ہر نامدار حضرت سید نا عثمان غنی رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے ،اس مقام پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جوڑے کی تحسین فر مائی (البدایہ والنھا یہ)آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عثمان غنی ر ضی اللہ عنہ کے فضائل میں ارشاد فر مایا :’’اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد جس نے سب سے پہلے ہجرت کی وہ حضرت عثمان غنی ر ضی اللہ عنہ ہیں ۔‘‘( الا صا بۃ لابن حجر ) حضرت رقیہ ر ضی اللہ عنہا وہ عظیم ہستی ہیں جنہوں نے امت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دو بار ہجرت فر مائی جب حضرت عثما ن ر ضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ شریف سے مدینہ پاک کی طرف ہجرت فر ما نے والے ہیں ،تو حضرت عثمان غنی ر ضی اللہ عنہ مکہ شریف کی طرف آئے مگر پھر خبر ملی کہ آپ صلی ا للہ علیہ وآلہ وسلم تو مدینہ پاک پہنچ چکے ہیں ،تو پھر آپ نے حضرت رقیہ ر ضی اللہ عنہا کے ہمراہ مدینہ پاک کی طرف ہجرت فر مائی ،اس طرح دو بار دینِ اسلام کی خا طر صعو بتوں بھرا سفر فر مایا۔(کتب سِیَر) حضرت سیدۃ رقیہ ر ضی اللہ عنہا جب حبشہ میں تشریف فر ماتھیں تو حضرت عثمان غنی ر ضی اللہ عنہ سے ان کے ہاں بیٹے کی ولادت ہو ئی جس کا نام حضرت عبداللہ ر ضی اللہ عنہ رکھا گیا ،ان کے نام پر ہی جناب حضرت عثمان غنی ر ضی اللہ عنہ نے اپنی کنیت ابو عبداللہ رکھی ۔ان کے بعد حضرت سیدۃ رقیہ ر ضی اللہ عنہاکی کوئی اولاد نہ ہوئی (الا صابۃ لابن حجر عسقلانی) حضرت سیدہ ر قیہ ر ضی اللہ عنہا نہایت صابرہ عو رت تھیں ،آپ نے ہر مر حلہ میں صبر کیا ،مکہ مکر مہ میں سخت ترین مشکلات اور ہجرت کے اسفار کے المناک لمحات میں بھی آپ کی زبان سے سوائے ’’انا اللہ و انا الیہ راجعون ‘‘ کے سوا کچھ نہ سنا گیا ،اپنی والدہ محتر مہ حضرت سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کے وصال باکمال پہ آپ کا صبر تمام کا ئنات کی عو رتوں کے لیے مشعل راہ ہے ،اپنے شو ہر کی تا بعداری اور خدمت کے حوالے سے آپ کاروشن کردار سارے جہاں کی خواتین کے لیے قابل تقلید ہے ۔آپ کاوصال سن 2 ہجری میں ہوا۔اللہ پاک کی با رگا ہ میں دعا ہے اللہ پاک تمام خواتین اسلام کو حضو ر صلی ا للہ علیہ وآلہ وسلم کی صا حبزا دیوں کے نقش قدم پر چلنے کی تو فیق عطا فر مائے ۔ آمین