کشمیر میں ’’نظریہ انضمام پاکستان‘‘ کی سب سے بڑی اورزوردارآوازسید علی شاہ گیلانی ہیں۔ بھارت اپنے تمام اوچھے ہتھکنڈوں کے استعمال کے باوجود اس صدائے حق کودبانے میںناکام رہاہے۔کشمیرکے یہ عمرمختارگزشتہ 8برسوں سے مسلسل خانہ نظر بند ہیں۔ بھارت کی قابض فورسز کے کڑے حصار کے باعث بزرگ کشمیری رہنماکی موجودہ رہائش گاہ واقع حیدرپورہ سری نگر کو عملاً ایک جیل خانے میں تبدیل کیا گیا ہے۔ گھر میں محصور کرکے عملی طورپرانہیں تحریک آزادی کشمیرکے تئیں تمام سرگرمیوں سے روک دیاگیاہے ۔15نومبرجمعرات کو بزرگ کشمیری رہنماسید علی گیلانی کو 8سال کی طویل خانہ نظر بندی کے بعد اس وقت ایک یوم کے لئے اپنے آبائی گائوں ڈورو سوپور جانے کی اجازت دے دی گئی کہ جب انکے سب سے بڑے دامادغلام حسن مخدومی وفات پاگئے ۔اس طرح8برس کے بعد جب آپ اپنی بیٹی کے گھر پہنچے توبیٹی کے شوہرکی وفات پر اپنی دختر کی ڈھارس بندھائی ۔لیکن اسکے اگلے ہی روزبھارتی قابض فورسزنے انہیں سری نگرپہنچاکراپنی موجودہ رہائش گاہ کے اندر پھر سے نظربندکردیا۔ بھارتی سامراج کشمیر کے عمرمختار اور بزرگ کشمیری قائدسید علی گیلانی سے کس قدر خوفزدہ ہے اس کا اندازہ اس امرسے لگایاجاسکتاہے کہ انہیں گزشتہ آٹھ برسوںسے خانہ نظربندرکھاگیاہے۔15جولائی 2010ء کوان کے دولت خانہ کوسب جیل قراردے کرانہیںخانہ نظربندکردیاگیاتھاتب سے وہ بدستور خانہ نظربندہیں اور 15جولائی 2018ء کو انکی خانہ نظربندی کے پورے آٹھ برس ہوگئے ہیں۔ 88 سالہ سید علی گیلانی علالت کے باوجود جارحانہ بھارتی قبضے اوربھارتی جبروقہرکے خلاف اس مردآہن کی للکار کو سلام ۔تحریک آزادی کشمیرکے اس قائدمیں جدوجہد آزادی کشمیرکے ساتھ والہانہ عشق، جدوجہد کی مقصدیت کا گہرا شعور، نشیب و فراز کا ادراک، نوجوانان ملت کشمیر کے ساتھ محبت، حصول منزل کی فکر، دشمن کے منصوبوں پر گہری نظر، تحریکی تقدس کا احساس بدرجہ اتم موجود پایا جا رہا ہے ۔ کشمیرکے عمرمختارسید علی گیلانی تاریخ کشمیر کی وہ منفرد ہمہ پہلو شخصیت ہیں جو 1990ء سے تادم تحریر کشمیرمیںایک زوردار آوازاورباصلاحیت سفیربن کر بھارت کے سیاہ کارناموں کوطشت از بام کرتے چلے آرہے ہیں۔اس دوران بھارت کی چیرہ دستیوں کوبے نقاب کرنے اورملت اسلامیہ کشمیرکاحوصلہ بڑھانے میں آپ نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ آپ کی بے باکی اور جرأت، آپ کے صحیح اور اٹل موقف کی وجہ سے آپ بھارت کی آنکھوں میں خارکی طرح کھٹکتے ہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سید علی گیلانی کی روح کی گہرائیوں میں کشمیر کی تحریک آزادی کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سنجیدگی سے سوچتے رہے ہیںجس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے لائحہ عمل کی تائید عالمی سطح کے دانشوروں اور سیاسی رہنمائوں کے افکار اور طریقۂ کار سے ہوتی ہے۔ آپ مسئلہ کشمیر کو اصولی موقف کے مطابق حل کرانے کیلئے کسی بھی مشکل اور خطرے کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ تحریک آزادی کے تئیں آپ کا رویہ فداکارانہ ہے۔ یہ رویہ عوام کی ان پر وارفتگی کا اہم محرّک ہے اور اسے جدوجہد آزادی میں روح کا مقام حاصل ہے۔ سید علی گیلانی کیلئے کشمیر کا تنازعہ سوہان روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ ہر آہ میں اس دردوکرب کا اظہار کرتے ہیں۔ جس طرح ایک سلیم الفطرت اوربے لوث عاشق کی ہر ادا سے جذبۂ عشق چھلکتا ہے اسی طرح اٹھتے بیٹھتے، جلوت و خلوت میں، اسیری اور آزادی میں، مسجد و محفل میں، فرد اور افراد کے ساتھ، عوام میں خواص میں، حاکم اور محکوم کے سامنے، زبان اور قلم سے، عوامی اجتماعات ،شہداء کے جنازوں، احتجاجی ریلیوں میں غرض ہر جگہ اور ہر حال میں سید علی شاہ گیلانی اپنے اس درد کا اظہار کرتے ہیں۔اگرچہ گزشتہ 8برسوں سے وہ اپنے گھرمیں نظر بند کر دیئے گئے ہیں اورانہیں اپنے گھرکے صحن سے باہر قدم رکھنے کی اجازت نہیں جسکے باعث آپ بنفس نفیس اب نہ توآپ شہدا کے جنازوں اورنہ ہی احتجاجی ریلیوں میں شرکت کرسکتے ہیں لیکن اس کے باوجودوہ ٹیلیفون کے ذریعے سے اپنی ملت سے جڑے ہوئے عوامی اجتماعات سے ٹیلیفونک خطابات کرتے ہیں۔جس سے اس امرمیں کوئی شبہ باقی نہیں رہتاہے کہ گویا انہوں نے تحریک کے سارے درد کو اپنے حساس دل کے دامن میں سمیٹ لیا ہے۔ اس درد کی شدت کا یہ عالم ہے کہ آپ کی آہ سے زخموں کو زبان مل گئی اور برف کے گالے بھڑکتے شعلوں میں ڈھل گئے۔ کشمیر کی تحریک آزادی کے ساتھ گیلانی کی انسیّت کا رنگ ان کی شخصیت کے ہر پہلو میں نمایاں طور پر جھلکتا ہے۔ یہ امر محتاج وضاحت نہیں کہ کشمیرکے بزرگ قائدظالموں کی سازشوں اور منصوبوں کوطشت ازبام کرکے ان تمام چہروں کو بے نقاب کرتے چلے آ ئے ہیں جوکشمیریوں کی جدوجہد کو داخلی اور خارجی سطح پرنقصان پہچانے کے درپے ہیں۔ وہ مسئلہ کشمیر پر بھارت کے مکرو فریب اوردھوکہ دہی کوطشت از بام کرتے رہے، ساتھ ساتھ ارباب پاکستان کی مسئلہ کشمیر پر بے مقصد و بے معنی لچک پر ہمیشہ آواز حق بلند کرتے رہے سید علی گیلانی آج تک نہ صرف تحریک آزادی کشمیرکے حوالے سے بے لاگ اور بے باک ہیں بلکہ وہ کشمیریوں کی تحریک کے سفارتی محاذپرکسی کی خوشنودی اور رضامندی یا خفگی اور ناراضگی کی پرواہ کئے بغیر راست اپروچ اور صحیح موقف اختیار کرتے رہے۔ سید علی گیلانی نے نوجوانی میں جس راستے کا انتخاب کیا تھا وہ اس پیرانہ سالی میں بھی عز م وہمت کے ساتھ اس پر گامزن ہیں۔ آپ نے اس طاقت کے خلاف عزم و استقلال دکھایا جس کے پاس کوئی اصول نہیں ۔ انہوں نے ہمسفروں اور پشت پناہوں کی رفاقت اور پشت پناہی سے محرومی کو خاطر میںنہ لاتے ہوئے آج تک خونین کفنوں کو کاندھا دیا۔ آپ حکمرانوں، شاہی درباریوں، اپنوں اور غیروں کے مطعون ٹھہرے، لیکن آپ خاک و خون میں لت پت سر فروشوں، بے سہارا والدین، عصمت دریدہ خواتین، بے خانماں ستم رسیدوں، نوبیاہی بیوائوں، اسیروں، زخمیوں، مہاجروں، مظلوموں غرض ہماری عظیم اور مقدس تحریک کے حقیقی وارثوں کے شانہ بشانہ چلتے رہے۔ آپ نے ان کے آنسوؤں، ان کی آہوں اور سسکیوں کو زبان بخشنے اور ان کی ترجمانی میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ یہ آپ کی جرأت رندانہ اور مومنانہ بیباکی کی واضح دلیل ہے۔ کشمیرکے بزرگ قائدسیدعلی شاہ گیلانی پاکستان کے حکمرانوں سے شاکی ہیں کہ وہ کشمیریوں پرڈھائی جانے والی قیامتوں کاادراک نہیں رکھتے ہیں۔ان کا موقف ہے کہ اگرپاکستان کے ارباب اقتدارمیں کشمیریوں کے تئیں صحیح معنوں میں ہمدردی ہوتی تو صورتحال یکسرمختلف ہوتی اوربھارت میں یہ دم خم نہ ہوتا کہ وہ کشمیریوں کومولی گاجرکی طرح کاٹ کے رکھ دیتا۔