سید علی گیلانی ایک شخص کا نام نہیں، ظلم و استبداد کے مقابل مزاحمت کی ایک تحریک کا بامعنی استعارہ ہے، وہ ایک شخص نہیں بلکہ جدوجہد آزادی کے ایک پورے عہد کا نام ہے۔ سید علی گیلانی بہادری اور استقامت کا کا وہ روشن نام ہیں، جس کا ذکر داستانوں میں ملے گا مائیں اپنے بچوں کو جس کی بہادری کے قصے سنایا کریں گی، علم اور جبر کے سامنے جب بھی مسلسل اور مستقل مزاحمت کا ذکر ہوگا، تو آنے والی نسلوں کو سید علی گیلانی کی یاد آئے گی۔ 92سال کے سید علی گیلانی کارزارِ حیات میں اپنا کردار کس شان سے نبھا کر گئے کہ ان کی شخصیت بہادری اور مزاحمت کے ہر شعر کے آئینے میںبا معنی معنویت کے ساتھ جگمگانے لگی۔ کرو کج جبیں پہ سر کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو کہ غرور عشق کا بانکپن پس مرگ ہم نے بھلا دیا میرے چارہ گر کو نوید ہو صف دشمناں کو خبر کرو کہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکادیا آخری دنوں کی ایک ویڈیو فیس بک پر موجود ہے، جس میں یہ عظیم مجاہد آزادی بیمار، کمزور اور نحیف دکھائی دے رہے ہیں مگر زبان پر درود پاک ہے،پاکستان کا نام ہے، جو کوئی اہل دل ہوگا وہ اس ویڈیو کو دیکھ کر آبدیدہ ضرور ہوگا۔ وہ تمام عمر ظلم اور جبر کے سامنے ایک چٹان بن کر کھڑے رہے ،یہاں تک کہ ان پر زندگی کی شام اتر آئی۔وقت نے اپنے برفاب لمحے ان پر اتارے، بالوں پر چاندی جھلملانے لگی، باریش مجاہدآزادی بظاہر بوڑھا اور کمزور نظر آتا تھا مگر وہ جبر کے طاقتور نظام کے سامنے کسی چٹان کی مانند ایستادہ رہے۔ یہاں تک کہ ظلم کے پروردہ موت کی بانہوں میں بھی اس کے ٹھنڈے جسد خاکی سے خوف زدہ رہے۔کشمیریوں کو لیڈر کا آخری دیدار تک نہ کرنے دیا۔ابھی تک یہی خبریں ہیں جو مجاہد آزادی کے جسد خاکی کو نامعلوم مقام پر دفنا دیا گیا۔ سید علی گیلانی جن کے جانے سے عام کشمیر سے لے کر کشمیری رہنماوں تک خود کو یتیم محسوس کر رہے ہیں۔آخری وقت تک ان کے کمزور جسم کی رگوں میں دوڑنے والا لہو آزادی کی تال پر دھمال ڈالتا رہا ۔تخلیق کرنے والے نے ان کے اندر کبھی نہ جھکنے والی روح کو پھونکا تھا، اسی لیے تو ظلم کے سارے ضابطے اور جبر کے سارے قاعدے اس بوڑھے مجاہد آزادی کے سامنے دم توڑتے رہے ۔ میرے پاس ایسے عظیم الشان الفاظ نہیں ہیں ،جو سید علی گیلانی کے عزم ، استقامت اور آزادی کے لیے طویل اور پروقار جدوجہد کا احاطہ کرسکیں۔ ہمارے تصور کے دائرے میں اس زندگی کا تصور سما ہی نہیں سکتا ،جو زندگی سید علی گیلانی نے استبداد سے لڑتے ہوئے گزاری ،زندگی کے کئی قیمتی سال بھارتی جیلوں گزار دیے۔ظلم کے نظام سے سمجھوتا کرنے والے سارے امکانات یہ کہہ کر رد کر دیئے کہ زندگی اتنی غنیمت بھی نہیں جس کے لئے عہدِ کم ظرف کی ہر بات گوارا کر لوں ہمارے لئے تو یہ محض اشعار ہیں۔چند لمحوں کے لیے لہو گرما دینے والے اعلی و ارفع خیالات ہیں مگر سید علی گیلانی کے لیے زندگی کرنے کا واحد راستہ یہی تھا۔جبر کے نظام کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا، مساوات اور آزادی کے لیے جدوجہد کرنا ان کی زندگی زندگی کے عظیم خواب اور آرزوئیں ہیں۔ہم میں سے بہت سے اپنی زندگیوں میں ایسی بڑے خوابوں اور بڑی آدرشوں کے ساتھ شاہراہ حیات پر سفر آغاز کرتے ہیں لیکن پھر زندگی کی حقیقتوں کے سامنے جلد ہمارے آئیڈیلز ہماری آدرشیں ہانپنے لگتی ہیں۔اپنے آئیڈیلز پر سمجھوتا کر لینے والے کبھی داستانوں کے کردار نہیں بنتے اس کے لئے سید علی گیلانی جیسا ہونا پڑتا ہے۔ ایک سچے مومن کے مجاہدانہ زندگی گزار کر وہ اپنے رب کے حضور پیش ہو چکے ہیں۔جب علی گیلانی کی رحلت کی خبر سنی تومحسوس ہوا کہ وہ تکلیف اور اذیت سے بھری طویل عمر گزار کر کارزار حیات سے سرخرو ہو کر اپنے رب کی طرف لوٹے ہیں۔میں تصور میں دیکھ رہی ہوں کہ ایک سچا مومن رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو رہا ہے اور اپنے پیر و مرشد اقبال ہی کے الفاظ میں عرض گزار ے۔ حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملتی تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاض ہستی میں وفا کی جس میں ہو بو' وہ کلی نہیں ملتی مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں جو چیز اس میں ہے' جنت میں بھی نہیں ملتی جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں مجاہد آزادی کی حیثیت سے زندگی گزار نے والے علی گیلانی خود امت کی آبرو بننے والے چنیدہ مومن تھے۔ ایک طرف لاکھوں کشمیری شہیدوں کا لہو پکارتا ہے اور دوسری طرف استبداد کے سامنے کلمہ حق کہنے والے علی گیلانی کا بلند آہنگ سنائی دیتا ہے ۔اس آواز کا بانکپن اور اس کی بازگشت صدیوں تک دلوں کو گرمائے گی۔سر سبز پہاڑوں سے ٹکرائے گی اور کشمیر کی ڈل جھیل کے پانیوں پر ارتعاش پر ارتعاش پیدا کرتی رہے گی۔۔ ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم۔۔۔ ٭٭٭٭٭