اللہ نے عربوں کو اسلام کے ذریعے دنیا میں سربلند کیا تھا اور انہیں اقوام عالم کی سربراہی کا اعزاز بخشا تھا۔ اب عربوں کے پاس دولت ہے مگر سیادت نہیں۔ آج عرب عوام کے دل امت مسلمہ کے ساتھ جبکہ عرب حکمرانوں کے دل امریکہ و انڈیا کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ بات لمحہ موجود کی ہو رہی ہے مگر چند لمحوں کے لئے مجھے عظمت رفتہ کو آواز دینا ہو گی۔ محسن انسانیت ﷺ کے ظہور سے پہلے پوری انسانیت تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ عرب پر دور وحشت کی تاریک رات چھائی ہوئی تھی ہر طرف انتشار ہی انتشار تھا اور انسان باہم دست و گریباں تھے۔ جنگ و جدل اور لوٹ مار کا دور دورہ تھا۔اللہ نے اپنے رسولؐ کی قیادت میں بھیڑ بکریاں چرانے والوں کو وہ قوت و شوکت عطا کی کہ عربوں نے آگے بڑھ کر قیصر و کسریٰ کے تخت الٹ دیے اوردنیا کو ظلم وجبر کی پستی سے نکال کر امن و سلامتی کا گہوارہ بنا دیا۔ آج ہمارے بعض ’’حقیقت پسند‘‘ تجزیہ نگار تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ دنیا مفادات کی ہے۔ عربوں کے تجارتی و سیاسی مفادات ہم سے کہیں بڑھ کر ہندوستان کی متعصب بھارتی قیادت کے ساتھ وابستہ ہیں، اس لئے متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شیخ محمد بن زید النہیان نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈ دیا تو اس میں ہمیں چیں بہ بچیں ہونے کی ضرورت نہیں۔ ان ’’حقیقت نگاروں‘‘ کو شاید یہ ادراک نہیں کہ اماراتی یا سعودی عرب ہوں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کے پائوں میں کانٹا بھی چبھتا ہے تو پاکستان کے مسلمان تڑپ اٹھتے۔ عربوں کو بھی ایک غلط فہمی دور کر لینی چاہیے کہ ان کے پاس دولت کی ریل پیل گزشتہ چند دہائیوں سے ہوئی ہے، جب عربوں کے ہاں افلاس ہی افلاس تھا تب بھی برصغیر پاک و ہند کے والیان ریاست سرعام مسلمان اپنے عرب بھائیوں کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کر دیا کرتے تھے اور اپنے عربوں کی دل کھول کر مدد کیا کرتے تھے۔ عربوں کے ساتھ اس جذباتی وابستگی کا اول آخر سبب یہ تھا کہ ان کا تعلق قوم رسول ہاشمی ﷺ سے ہے۔ اس لئے آج امارات کا سب سے بڑا اعزاز عین اس وقت عطا کیا جب مودی نے ایک کروڑ مسلمانوں کو کرفیو لگا کرخورو نوش اوردوا دارو سے گزشتہ 21روزسے محروم کر رکھا ہے۔گزشتہ 21روز سے کشمیر میں مارکیٹیں بند‘ بازار بند‘ روزگار بند‘ سکول و کالج بند‘ ٹیلی فون و دیگر ذرائع مواصلات بند اور ایک کروڑ کشمیری زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں، ان حالات میں لاکھوں کشمیری مسلمانوں کے قاتل کو بلاکر ایوارڈ عطاکرنا کشمیریوں کے ہی نہیں ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ اس ایذا رسانی پر مفتی تقی عثمانی سے لے کر فواد چودھری اور اہل پاکستان تک تڑپ اٹھے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں ’’ہائے افسوس ! وہ شخص جو ہزاروں مسلمانوں کا سب سے بڑا قاتل ہے وہ شخص جس نے ہزاروں مسلمانوں کی زمینوں پرغاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے اور جو شخص کشمیر میں مسلمانوں کے مزید قتل عام کا ارادہ رکھتا ہو اور کشمیریوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دینا چاہتا ہو ایسے شخص کو ایک مسلمان ملک کی طرف سے ایوارڈ دیا جانا سوائے شرمندگی اور ندامت کے کچھ نہیں‘‘۔ مفتی صاحب نے یہ ٹویٹ عربی میں بھی کیا ہے۔ وزیر سائنس فواد چودھری اگرچہ فلسفہ و سائنس کی دنیائوں کی خشک اور ماڈرن باتیں کیا کرتے تھے مگر آزادی کشمیر کے ساتھ ان کی جذباتی وابستگی قابل رشک بھی ہے اور قابل تقلید بھی۔ خاص طور پر ان کے جذبات قابل تحسین ہیں۔ فواد چودھری اہل پاکستان اور اہل کشمیر کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے گجرات اورکشمیر میں مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کے دامن کو حریفانہ کھینچنے کے لئے بے تاب دکھائی دیتے ہیں۔ برطانوی رکن پارلیمنٹ ناز شاہ نے اپنی سرکاری حیثیت میں متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شیخ محمد بن زید النہیان کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے کشمیری مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کو ایوارڈ دینے کے فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ کشمیری مسلمانوں کے ساتھ آپ کے رشتہ ایمان کے علاوہ یہ ایک انسانی مسئلہ بھی ہے۔ جس شخص نے ایک کروڑ انسانوں کو اشیائے خورو نوش اور ادویات سے محروم کر رکھا ہو اور انہیں گھروں میں مقید کر رکھا ہو اس شخص کو ایوارڈ دینا غیرت ایمانی ہی کی نہیں جذبہ انسانی کی بھی توہین ہے۔بزرگ حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی نے کشمیریوں کو اس دور ابتلا و آزمائش میں متحد رہنے کی تلقین کی ہے انہوں نے پاکستان اور امت مسلمہ کو پکارا ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور کشمیریوں کی مدد کریں۔ سید علی گیلانی نے اپنے پیغام میں ایک اہم نکتہ اٹھایا ہے کہ پاکستان اس کے عوام اور پوری امت مسلمہ مسئلہ کشمیر کے اہم فریق ہیں۔ پاکستانی حکمران جب یہ کہتے ہیں کہ ہم کشمیر کاز کے سفارت کار ہیں تو یہ خلاف واقعہ ہے پاکستان مسئلہ کشمیر کا سفارت کار نہیں اس کا مدعی اور فریق ہے۔ جب مظلوم و مجبور کشمیری تمام تر مظالم و مصائب کے باوجود پاکستان سے الحاق کا نعرہ بلند کرتے ہیں کہ کشمیر بنے گا پاکستان‘ تو پاکستان کو بھی اپنی تاریخ سے رجوع کرتے ہوئے کشمیریوں کے ساتھ اگر مگر چھوڑ کر مکمل یکجہتی کا اعلان کرنا چاہیے۔ سید گیلانی نے کشمیری قوم کے لئے پانچ نکاتی پروگرام کا اعلان کیا ہے۔ اس پروگرام کا اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ بھارتی مظالم کے خلاف بھر پور مگر پرامن احتجاج کریں۔ بھارتی فورسز مارنے کے لئے تیار ہیں مگر پھر بھی آپ پرامن رہیں۔ سید صاحب کا حکم ان کی قوم سر آنکھوں پر رکھے گی تاہم اگر مودی اپنی نازی پالیسیوں پرعملدرآمد کرتے ہوئے خون ریزی پر اتر آتا ہے اور کشمیریوں کا قتل عام شروع کر دیتا ہے تو پھر کشمیریوں کے ردعمل میں مزید شدت پیدا ہو سکتی ہے اور تحریک مزاحمت پتھروں اور کنکروں سے گولیوں اورگولوں تک جا سکتی ہے۔ عالمی بالخصوص امریکی اوریورپی میڈیا مودی کے نازی ازم اور اس کے غیر انسانی رویے اور انسانی حقوق کی پامالی کو اجاگر کر رہی ہے اور اخبارات و چینلز اپنی اپنی حکومتوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اس بھیانک ظلم کو فی الفور بند کر دے۔ پاکستانی حکمران مودی کی جارحیت اور کشمیریوں پر حکومت پاکستان ساری اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ ملا کر سارے ملک کی سطح پر ایک بھر پور احتجاجی مظاہرہ کیوں نہیں کرتے۔ احتجاجی مظاہرہ کوئی رسم نہیں یہ اس لئے ہوتا ہے کہ دنیا کو معلوم ہو سکے کہ پاکستان کے 22کروڑ عوام کے کیا جذبات ہیں پاکستانی حکومت کا کام داخلی احتجاج اور انڈیا کو ہولناک جنگ کے امڈتے ہوئے امکانات سے آگاہ کرنا ہے۔ یہ وقت شانتی شانتی کے گیت الاپنے کا نہیں۔ یہ وقت اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا ہے۔ ایٹمی جنگ کا خطرہ ہوا تو تب دنیا والے خود آگے بڑھیں گے ہمیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ سید علی گیلانی کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے ہمیں بھی داخلی اتحاد کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے بلاتاخیر او آئی سی کا اسلام آباد میں سربراہی اجلاس بلانا چاہیے۔ اجلاس میں 57اسلامی ممالک کے سربراہان کو بحیثیت مسلمان مظلوم کشمیری مسلمانوں کے حوالے سے ان کی ذمہ داریاں یاد دلائی جائیں یہ اجلاس سید علی گیلانی کی پکار کا جواب بھی ہو گا اور ہماری طرف سے وما علینا الاالبلاغ بھی ہو گا۔ اہل کشمیر اور اہل پاکستان کے لئے یہ قیامت کی گھڑی ہے اگر اس گھڑی میں بھی ہمارے بھائی ہماری پکار پرنہیں آئیں گے تو پھر ہمارے لئے او آئی سی کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے۔